جمعہ ۱۹ اپریل ۲۰۲۴ برابر ۱۰ شوّال ۱۴۴۵ ہجری قمری ہے
منصور ہاشمی خراسانی
حضرت علّامہ منصور ہاشمی خراسانی حفظہ اللہ تعالی کے دفتر کے معلوماتی مرکز (ویب سایٹ) کا اردو زبان میں آغاز ہو گیا ہے۔
loading
سبق
 
آنجناب کا ایک سبق اس بارے میں کہ زمین ایک عالم مرد سے ان تمام ادیان میں جن میں پروردگار عالم نے خلیفہ، امام اور رہنما اپنے حکم سے مقرّر کیا ہے، خالی نہیں رہتی۔
پیغمبر کی صحیح احادیث جو اس پر دلالت کرتی ہیں۔

حدیث ۵

رَوَى أَحْمَدُ بْنُ عَمْرٍو الْبَزَّارُ [ت۲۹۲هـ] فِي «مُسْنَدِهِ»[۱]، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِسْكِينٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَالِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَفْطَسُ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ نُفَيْلٍ، قَالَ:

قَالَ رَجُلٌ: «يَا رَسُولَ اللَّهِ، بُوهِيَ بِالْخَيْلِ وَأُلْقِيَ السِّلَاحُ وَزَعَمُوا أَنْ لَا قِتَالَ»، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: «كَذَبُوا، الْآنَ حَانَ الْقِتَالُ، لَا تَزَالُ مِنْ أُمَّتِي أُمَّةٌ قَائِمَةٌ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرَةٌ».

ترجمہ:

احمد ابن عمرو بزار [م:۲۹۲ھ] نے اپنی «مسند» میں نقل کیا ہے، (اس طرح سے) کہ وہ کہتے ہیں: محمّد ابن مسکین نے ہم سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: عبد اللہ ابن یوسف نے ہم سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: عبد اللہ ابن سالم نے ہمیں بتایا، وہ کہتے ہیں: ابراہیم ابن سلیمان افطس نے ہم سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ولید ابن عبد الرحمان نے مجھ سے بیان کیا انہوں نے جبیر ابن نفیر سے اور انہوں نے سلمۃ ابن نفیل سے سنا کہ وہ کہتے ہیں:

ایک شخص نے کہا: اے رسول خدا! (لوگوں نے) اسبان کو چھوڑ دیا ہے اور اپنے اسلحوں کو زمین پر رکھ دیا ہے اور اس خیال میں ہیں کہ اب کوئی جنگ نہیں ہوگی، پس رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے فرمایا: یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔ جنگ تو ابھی شروع ہوئی ہے۔ میری امت کے کچھ لوگ ہمیشہ کامیابی کے ساتھ حق پر قیام کرنے والے ہونگے۔

ملاحظہ

قَالَ الْمَنْصُورُ حَفِظَهُ اللَّهُ تَعَالَى: لَمْ يَنْفَرِدْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَالِمٍ بِرِوَايَتِهِ عَنِ الْأَفْطَسِ، بَلْ تَابَعَهُ إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، وَلَمْ يَنْفَرِدِ الْأَفْطَسُ بِرِوَايَتِهِ عَنِ الْوَلِيدِ، بَلْ تَابَعَهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي عَبْلَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ مُهَاجِرٍ الْأَنْصَارِيُّ، وَلَمْ يَنْفَرِدِ الْوَلِيدُ بِرِوَايَتِهِ عَنْ جُبَيْرِ، بَلْ تَابَعَهُ نَصْرُ بْنُ عَلْقَمَةَ، وَالظَّاهِرُ عِنْدَهُمْ أَنَّ جُبَيْرًا لَمْ يَنْفَرِدْ بِرِوَايَتِهِ عَنْ سَلَمَةَ، بَلْ تَابَعَهُ سُلَيْمَانُ بْنُ سُلَيْمٍ، وَلَيْسَ ذَلِكَ بِظَاهِرٍ عِنْدِي، وَفِي رِوَايَاتِهِمْ زِيَادَةٌ، وَهِيَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يُزِيغُ اللَّهُ لَهُمْ قُلُوبَ أَقْوَامٍ، وَيَرْزُقُهُمْ مِنْهُمْ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ، وَحَتَّى يَأْتِيَ وَعْدُ اللَّهِ»[۲]، وَفِي رِوَايَاتِهِمُ اضْطِرَابٌ، فَأَحْيَانًا رَوَوْا عَنْ سَلَمَةَ بْنِ نُفَيْلٍ أَنَّهُ قَالَ: «دَنَوْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَادَتْ رُكْبَتَايَ تَمَسَّانِ فَخِذَهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بُهِيَ بِالْخَيْلِ وَأُلْقِيَ السِّلَاحُ وَزَعَمُوا أَنْ لَا قِتَالَ»، وَأَحْيَانًا رَوَوْا عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ: «كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَذَالَ النَّاسُ الْخَيْلَ، وَوَضَعُوا السِّلَاحَ، وَقَالُوا: لَا جِهَادَ، قَدْ وَضَعَتِ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا»، فَالْقَائِلُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فِي الرِّوَايَةِ الْأُولَى سَلَمَةُ بْنُ نُفَيْلٍ، وَفِي الرِّوَايَةِ الثَّانِيَةِ رَجُلٌ آخَرُ، وَقَدْ رَوَوُا الرِّوَايَةَ الْأُولَى عَنْ رَجُلَيْنِ آخَرَيْنِ، وَهُمَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُفَيْلٍ الْكِنْدِيُّ[۳] وَالنَّوَّاسُ بْنُ سَمْعَانَ[۴]، وَهَذَا اضْطِرَابٌ أَكْبَرُ، وَأَصَحُّ رِوَايَاتِهِمْ عِنْدِي مَا رَوَوْا عَنْ سَلَمَةَ بْنِ نُفَيْلٍ أَنَّهُ قَالَ: «كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ»، وَأَمَّا رِوَايَتُهُمُ الَّتِي فِيهَا: «دَنَوْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَادَتْ رُكْبَتَايَ تَمَسَّانِ فَخِذَهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ»، فَالْأَقْرَبُ عِنْدِي أَنَّهَا رِوَايَةُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُفَيْلٍ، وَلَيْسَتْ رِوَايَةَ سَلَمَةَ بْنِ نُفَيْلٍ، وَإِنَّمَا صَحَّفُوهَا لِظَنِّهِمْ أَنَّهُمَا رَجُلٌ وَاحِدٌ، وَقَدْ ذَكَرَ أَهْلُ الْمَعْرِفَةِ بِالرِّجَالِ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ نُفَيْلٍ فِي عِدَادِ الصَّحَابَةِ[۵] وَسَاقُوا لَهُ حَدِيثًا غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ[۶]، وَالظَّاهِرُ أَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ أَيْضًا مِنْ حَدِيثِهِ، وَلَعَلَّهُ كَانَ أَخَا سَلَمَةَ، وَكَانَ الْقَائِلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فِي رِوَايَةِ سَلَمَةَ، إِلَّا أَنَّهُ مِنَ الْبَعِيدِ إِشَارَةُ سَلَمَةَ إِلَى أَخِيهِ بِهَذَا السِّيَاقِ، كَأَنَّهُ رَجُلٌ غَرِيبٌ؛ فَلَعَلَّهُ لَمْ يَكُنْ أَخَاهُ، وَالْمُؤَيِّدُ لِذَلِكَ وُجُودُ الْإِخْتِلَافِ فِي اسْمِ أَبِيهِ وَقَوْمِهِ؛ فَقَدْ ذَكَرَهُ بَعْضُهُمْ فَقَالَ: «عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُغَيْلٍ الْكِنَانِيُّ»[۷]، وَهَذَا أَنْسَبُ بِالسِّيَاقِ، وَظَنِّي أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ وَالنَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ قَدْ دَخَلَا مَعًا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَقَالَا لَهُ ذَلِكَ الْقَوْلَ، ثُمَّ رَوَى كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى حِدَةٍ، وَرَوَى عَنْهُمَا سَلَمَةُ بْنُ نُفَيْلٍ، فَاخْتَلَطَتْ رِوَايَاتُهُمْ، وَهَذَا مِثَالٌ جَيِّدٌ عَلَى مَا يُوجَدُ فِي رِوَايَاتِ الْآحَادِ مِنَ الْإِشْتِبَاهِ، وَهُوَ مِمَّا يَمْنَعُ الْإِعْتِمَادَ عَلَى أَلْفَاظِهَا، ﴿فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ[۸]!

ترجمہ:

منصور حفظہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: عبد اللہ ابن سالم اس روایت حدیث میں افطس سے جدا نہیں ہیں، بلکہ اسماعیل ابن عیاش نے ان کی ہمراہی کی ہے اور افطس اسکی روایت میں ولید سے جدا نہیں ہیں، بلکہ ابراہیم ابن ابی عبلۃ اور محمّد ابن مہاجیر انصاری نے ان کی ہمراہی کی ہے اور ولید اسکی روایت میں جبیر سے جدا نہیں ہیں، بلکہ نصر ابن علقمہ نے انکی ہمراہی کی ہے اور ان لوگوں کے نزدیک ظاہر یہ ہے کہ جبیر اس کی روایت میں سلمہ سے جدا نہیں ہیں، بلکہ سلیمان ابن سلیم نے انکی ہمراہی کی ہے، لیکن یہ میرے نزدیک ظاہر نہیں ہے اور انکی روایتوں میں زیادتی پائی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے اسکے (ادامہ میں) فرمایا: «خداوند نے قوموں کے دلوں کو انکے مخالف کر دیا ہے اور انکو انکے واسطے سے روزی عنایت کرتا ہے، یہاں تک کہ قیامت برپا ہو جائے اور خدا کا وعدہ پہنچ جائے»۔ اسی طرح، انکی روایتوں میں اضطراب پایا جاتا ہے؛ اس طرح سے کہ کبھی سلمہ ابن نفیل سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں: «میں رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے پاس گیا، آنحضرت مجھ سے اتنے قریب تھے کہ میرا زانو انکی ران سے مس ہو رہا تھا، پس میں نے کہا: یا رسول اللہ! اسبان کو چھوڑ دیا ہے اور اسلحوں کو زمین پر رکھ دیا ہے اور اس گمان میں ہیں کہ اب کوئی جنگ نہیں ہے» اور کبھی اس سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں: «رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے پاس بیٹھا تھا، پس ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ! لوگوں نے اسبان کو چھوڑ دیا ہے اور اسلحوں کو زمین پر رکھ دیا ہے اور یہ سوچ رہے ہیں کہ اب کوئی جہاد نہیں ہونے والاہے اور جنگ کا خاتمہ ہو چکا ہے»، پس پہلی روایت میں رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم سے کہنے والا شخص سلمہ ابن نفیل ہے اور دوسری روایت میں کوئی دوسرا شخص ہے اور ان لوگوں نے پہلی روایت کو دوسرے اور دو شخص سے نقل کیا ہے اور وہ دو شخص عبد اللہ ابن نفیل کندی اور نواس ابن سمعان ہیں اور یہ بڑا اضطراب ہے اور انکی روایتوں میں میری نظر میں سب سے زیادہ صحیح روایت وہ ہے کہ جو سلمۃ ابن نفیل سے نقل ہوئی ہے کہ وہ کہتے ہیں: «رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے پاس بیٹھا تھا، پس ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ!» اور انکی دوسری یہ کہ جس میں ذکر ہوا ہے: «رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے پاس حاضر ہوا، آپ مجھ سے اتنا نزدیک تھے کہ میرا زانو آپ کی ران سے مس ہو رہا تھا، پس میں نے کہا: یا رسول اللہ!»، پس میری نظر میں سب سے نزدیک تر یہ ہے کہ وہ روایت عبد اللہ ابن نفیل سے ہے، ناکہ سلمہ ابن نفیل سے اور وہ لوگ اس گمان میں کہ یہ دونوں ایک ہی شخص ہیں، اسکو تصحیف کر دیا ہے، جبکہ علم رجال کی معرفت رکھنے والے عبد اللہ ابن نفیل کو صحابہ میں سے شمار کرتے ہیں اور اس سے اس حدیث کے علاوہ دوسری حدیث بھی روایت کرتے ہیں اور ظاہر یہ ہے کہ یہ حدیث ان سے بھی ہے اور شاید وہ سلمہ کے بھائی اور سلمہ کی روایت میں رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم سے کہنے والے ہیں، سوائے اس کے کہ سلمہ کا اشارہ اسکے بھائی کی طرف اس سیاق کے ساتھ بعید ہے، جیسا کہ کوئی بےگانہ شخص ہے؛ پس شاید وہ اسکا بھائی نہیں تھا اور اس نام پدر اور قوم کےاختلاف کے وجود کا گواہ خود وہ ہے؛ کیونکہ انمیں سے بعض نے اسے اس نام سے «عبد اللہ ابن بغیل کنانی» یاد کیا ہے اور یہ (سلمہ کی روایت) کے سیاق کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتا ہے اور میرا گمان یہ ہے کہ عبد اللہ اور نواس ابن سمعان دونوں رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے پاس آئے اور اس بات کو ان سے بیان کیا اور پھر ان دونوں نے جداگانہ طور پر ان سے روایت نقل کی اور سلمہ ابن نفیل نے بھی ان دونوں سے روایت نقل کی ہے، پس ان کی روایتیں آپس میں مخلوط ہو گئی اور یہ اشتباہ کی ایک اچھی مثال ہے جو ایک روایت میں پائی جاتی ہے اور وہ ان چیزوں میں سے ہے جو روایات واحد کے الفاظ پر اعتماد کے مانع ہے «پس اے صاحبان بصیرت عبرت حاصل کرو»!

↑[۱] . مسند البزار، ج۹، ص۱۵۰
↑[۲] . الطبقات الكبرى لابن سعد، ج۹، ص۴۳۱؛ مسند أحمد، ج۲۸، ص۱۶۵؛ التاريخ الكبير للبخاري، ج۴، ص۷۰؛ المعرفة والتاريخ للفسوي، ج۱، ص۳۳۶؛ الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم، ج۴، ص۴۱۱؛ سنن النسائي، ج۶، ص۲۱۴؛ تهذيب الآثار للطبري (مسند عمر)، ج۲، ص۸۲۵؛ معجم الصحابة للبغوي، ج۳، ص۱۲۹؛ المعجم الكبير للطبراني، ج۷، ص۵۲
↑[۳] . انظر: الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم، ج۵، ص۲۵۹.
↑[۴] . انظر: صحيح ابن حبان، ج۴، ص۳۸۱.
↑[۵] . انظر: الإصابة في تمييز الصحابة لابن حجر، ج۴، ص۲۱۵.
↑[۶] . انظر: تاريخ الطبري، ج۱۱، ص۵۸۵؛ مسند الشاميين للطبراني، ج۲، ص۲۹۵؛ الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي، ج۲، ص۹۳.
↑[۷] . انظر: المستخرج من كتب الناس لابن منده، ج۲، ص۲۱۰.
↑[۸] . الحشر/ ۲
ھم آہنگی
ان مطالب کو آپ اپنے دوستوں کے ساتھ بھی شیئر کریں تاکہ دینی معلومات کو پھیلانے میں مدد ملے۔ نئی چیز سیکھنے کا شکر دوسروں کو وہی چیز سکھانے میں ہے۔
ایمیل
ٹیلیگرام
فیسبک
ٹویٹر
اس متن کا نیچے دی ہوئ زبانوں میں بھی مطالعہ کر سکتے ہیں
اگر دوسری زبان سے واقفیت رکھتے ہیں تو اِس متن کا اُس زبان میں ترجمہ کر سکتے ہیں۔ [ترجمے کا فارم]