جمعرات ۲۸ مارچ ۲۰۲۴ برابر ۱۷ رمضان ۱۴۴۵ ہجری قمری ہے
منصور ہاشمی خراسانی
حضرت علّامہ منصور ہاشمی خراسانی حفظہ اللہ تعالی کے دفتر کے معلوماتی مرکز (ویب سایٹ) کا اردو زبان میں آغاز ہو گیا ہے۔
loading
سبق
 
آنجناب کا ایک سبق اس بارے میں کہ زمین ایک عالم مرد سے ان تمام ادیان میں جن میں پروردگار عالم نے خلیفہ، امام اور رہنما اپنے حکم سے مقرّر کیا ہے، خالی نہیں رہتی۔
پیغمبر کی صحیح احادیث جو اس پر دلالت کرتی ہیں۔

حدیث ۱۱

رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ بَابَوَيْهِ [ت۳۸۱ه‍] فِي «عُيُونِ أَخْبَارِ الرِّضَا»[۱]، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الشَّاهِ الْفَقِيهُ الْمَرْوَزِيُّ بِمَرْوَرُودَ فِي دَارِهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ النَّيْسَابُورِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَامِرِ بْنِ سُلَيْمَانَ الطَّائِيُّ بِالْبَصْرَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي فِي سَنَةِ سِتِّينَ وَمِائَتَيْنِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ مُوسَى الرِّضَا عَلَيْهِ السَّلَامُ سَنَةَ أَرْبَعٍ وَتِسْعِينَ وَمِائَةٍ؛

وَحَدَّثَنَا أَبُو مَنْصُورٍ أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ بَكْرٍ الْخُورِيُّ بِنَيْسَابُورَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ هَارُونَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْخُورِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ الْفَقِيهُ الْخُورِيُّ بِنَيْسَابُورَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْهَرَوِيُّ الشَّيْبَانِيُّ، عَنِ الرِّضَا عَلِيِّ بْنِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ؛

وَحَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأُشْنَانِيُّ الرَّازِيُّ الْعَدْلُ بِبَلْخَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَهْرَوَيْهِ الْقَزْوِينِيُّ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ سُلَيْمَانَ الْفَرَّاءِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُوسَى الرِّضَا عَلَيْهِ السَّلَامُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي مُوسَى بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ، قَالَ:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ۖ[۲]، قَالَ: يُدْعَى كُلُّ قَوْمٍ بِإِمَامِ زَمَانِهِمْ، وَكِتَابِ رَبِّهِمْ، وَسُنَّةِ نَبِيِّهِمْ.

ترجمہ:

محمّد ابن علی ابن بابویہ [م:۳۸۱ھ] نے کتاب «عیون اخبار الرضا» میں نقل فرمایا ہے (اس طرح سے) وہ کہتے ہیں: ابو الحسن محمّد ابن علی ابن شاہ فقیہ مروزی نے مرو رود کے اپنے گھر میں ہم سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہم سے ابوبکر ابن محمّد ابن عبد اللہ نیشاپوری نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہم سے ابو القاسم عبد اللہ ابن احمد ابن عامر ابن سلیمان طائی نے بصرہ میں بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہم سے میرے والد نے سنہ دو سو ساٹھ میں بیان کیا، وہ کہتے ہیں: علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام نے مجھ سے سنہ ایک سو چورانوے میں بیان کیا؛

اسی طرح ہم سے ابو منصور ابن ابراہیم ابن بکر خوری نے نیشاپور میں بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہم سے ابو اسحاق ابراہیم ابن ہارون ابن محمّد خوری نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہم سے جعفر ابن محمّد ابن زیاد فقیہ نے نیشاپور میں بیان کیا، وہ کہتے ہیں: احمد ابن عبد اللہ ہروی شیبانی نے بیان کیا اور انہوں نے رضا علی بن موسیٰ علیہ السلام سے روایت کی ہے؛

نیز ابو عبد اللہ حسین بن محمد اشنانی رازی عدل نے بلخ میں مجھ سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: علی بن محمد بن مہرویہ قزوینی نے ہم سے بیان کیا، انہوں نے داؤد بن سلیمان فراء سے، انہوں نے علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے کہ وہ فرماتے ہیں: میرے والد موسیٰ بن جعفر نے مجھ سے حدیث بیان فرمائ، وہ فرماتے ہیں: مجھ سے میرے والد جعفر بن محمد نے بیان کیا، وہ فرماتے ہیں: مجھ سے میرے والد محمد بن علی نے بیان فرمایا: وہ فرماتے ہیں: مجھ سے میرے والد علی بن الحسین نے بیان فرمایا، وہ فرماتے ہیں: مجھ سے میرے والد حسین بن علی نے بیان فرمایا، وہ فرماتے ہیں: میرے والد علی بن ابی طالب علیہ السلام نے مجھ سے حدیث بیان فرمائ، وہ فرماتے ہیں:

اللہ تعالیٰ کے اس کلام کے بارے میں فرمایا: «جس دن ہم ہر قوم کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے» آپ نے فرمایا: ​​ہر قوم اپنے وقت کے امام کے ساتھ اور ان کے رب کی کتاب اور ان کے نبی کی سنت کے ساتھ بلائی جائے گی۔

ملاحظہ

قَالَ الْمَنْصُورُ حَفِظَهُ اللَّهُ تَعَالَى: الْأَسَانِيدُ الثَّلَاثَةُ يُقَوِّي بَعْضُهَا بَعْضًا وَيُنْزِلُ الْحَدِيثَ مَنْزِلَةَ الصَّحِيحِ، وَهُوَ حَدِيثٌ مَشْهُورٌ، ذَكَرَهُ الثَّعْلَبِيُّ [ت۴۲۷ه‍][۳] وَالدَّيْلَمِيُّ [ت۵۰۹ه‍][۴] وَالْقُرْطُبِيُّ [ت۶۷۱ه‍][۵] وَالسُّيُوطِيُّ [ت۹۱۱ه‍][۶] وَغَيْرُهُمْ، وَقَدْ جَمَعَ حُجَجَ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ: كِتَابَ رِبِّهِمْ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِمْ وَإِمَامَ زَمَانِهِمْ، وَإِنَّمَا قَدَّمَ إِمَامَ زَمَانِهِمْ لِأَنَّ بِهِ يُعْرَفُ كِتَابُ رَبِّهِمْ وَسُنَّةُ نَبِيِّهِمْ حَقَّ مَعْرِفَتِهِمَا، وَإِنَّمَا يُدْعَوْنَ بِهَذِهِ الثَّلَاثَةِ لِأَنَّ بِهَا هِدَايَتَهُمْ فِي كُلِّ زَمَانٍ، فَمَنْ عَرَفَهَا جَمِيعًا فَهُوَ مِنَ الْمُهْتَدِينَ، وَمَنْ لَمْ يَعْرِفْهَا جَمِيعًا فَهُوَ مِنَ الضَّالِّينَ، وَبِهَذَا يَتَمَايَزُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؛ كَمَا قَالَ تَعَالَى: ﴿مَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ[۷]، وقال: ﴿إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ[۸]، وَلَا رَيْبَ أَنَّ الظَّاهِرَ مِنْ ﴿إِمَامِهِمْ فِي الْآيَةِ مَنْ يَأْتَمُّونَ بِهِ فِي زَمَانِهِمْ؛ كَمَا قَالَ الطَّبَرِيُّ [ت۳۱۰ه‍] بَعْدَ ذِكْرِ أَقْوَالِ الْمُفَسِّرِينَ: «أَوْلَى هَذِهِ الْأَقْوَالِ عِنْدَنَا بِالصَّوَابِ، قَوْلُ مَنْ قَالَ: مَعْنَى ذَلِكَ: يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمُ الَّذِي كَانُوا يَقْتَدُونَ بِهِ وَيَأْتَمُّونَ بِهِ فِي الدُّنْيَا؛ لِأَنَّ الْأَغْلَبَ مِنِ اسْتِعْمَالِ الْعَرَبِ الْإِمَامَ فِيمَا ائْتُمَّ وَاقْتُدِيَ بِهِ، وَتَوْجِيهُ مَعَانِي كَلَامِ اللَّهِ إِلَى الْأَشْهَرِ أَوْلَى مَا لَمْ تَثْبُتْ حُجَّةٌ بِخِلَافِهِ يَجِبُ التَّسْلِيمُ لَهَا»[۹].

ترجمہ:

منصور حفظہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تینوں اسناد ایک دوسرے کو تقویت دیتی ہیں اور حدیث کو صحت میں تبدیل کرتی ہیں اور یہ ایک مشہور حدیث ہے کہ ثعلبی [م:۴۲۷ھ]، دیلمی [م:۵۰۹ھ]، قرطبی [م:۶۷۱ھ]، سیوطی [م:۹۱۱ھ] اور دیگران نے اسے ذکر کیا اور خدا کی بندوں پر تمام حجتوں کو جمع کیا ہے: ان کے رب کی کتاب اور ان کے نبی کی سنت اور ان کے زمانے کے امام اور اسی لئے ان کے زمانے کے امام کو مقدم کیا ہے تاکہ انکے ذریعے سے انکے رب کی کتاب اور ان کے نبی کی سنت پہچانی جاتی ہے اور اس لئے ان تینوں کے ساتھ بلائے جائیں گے کیونکہ ہر زمانے میں انکی ہدایت انہیں تین کے وسیلہ سے ہے۔ پس جو ان سب کو جانتا ہے، وہ ہدایت پانے والوں میں سے ہے اور جو ان سب کو نہیں جانتا وہ گمراہوں میں سے ہے اور اسی طرح قیامت کے دن لوگوں میں امتیاز کیا جائے گا؛ جیسا کہ فرمایا ہے: «جس نے ہدایت پائی وہ اپنے ہی فائدے کے لئے ہدایت پاتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے اس کا نقصان اسی کے لئے ہوتا ہے» اور فرمایا ہے: «یقیناً آپ کا رب گمراہوں کو خوب جانتا ہے اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے» اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آیت میں «انکے اماموں» سے مراد وہ ہیں کہ جنکی زمانے میں اقتداء کی جاتی ہے؛ جیسا کہ طبری [م:۳۱۰ھ] نے مفسرین کے اقوال نقل کرنے کے بعد کہا: «ہمارے نزدیک سب سے زیادہ صحیح اقوال ان لوگوں کے اقوال ہیں جنہوں نے کہا ہے: یہ آیت کا معنی ہے: جس دن ہم ہر اس قوم کو انکے امام کے ساتھ، جنہوں نے دنیا میں ان کی پیروی کی ہے، اپنی طرف بلائیں گے؛ کیونکہ عرب اکثر لفظ 'امام' کو اس معنی میں استعمال کرتے ہیں جس کی اقتدا اور پیروی کی جاتی ہے اور یہ زیادہ حق دار ہے کہ خدا کے کلام کے معنی اس چیز کی طرف لوٹائے جائیں جو زیادہ مشہور ہے جب تک کہ اس کے خلاف کوئی دلیل نہ ہوکہ جسے قبول کرنا ضروری ہو جائے»۔

شاہد ۱

وَرَوَى الْيَعْقُوبِيُّ [ت۲۸۴ه‍] فِي «تَارِيخِهِ»[۱۰] مُرْسَلًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ خَطَبَ يَوْمًا فَقَالَ فِي خُطْبَتِهِ: «إِنَّ الْعَبْدَ لَا تَزُولُ قَدَمَاهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ عُمْرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ، وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَا أَبْلَاهُ، وَعَنْ مَالِهِ مِمَّا اكْتَسَبَهُ وَفِيمَا أَنْفَقَهُ، وَعَنْ إِمَامِهِ مَنْ هُوَ؟ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ۖ[۱۱] إِلَى آخِرِ الْآيَةِ».

ترجمہ:

نیز یعقوبی [م:۲۸۴ھ] نے اپنی «تاریخ» میں بصورت مرسل رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم سے ایک روایت نقل کی ہے کہ ایک دن آپ نے خطبہ پڑھا اور اس میں فرمایا: یقیناً قیامت کے دن بندے کے قدم نہیں اٹھائے جائیں گے یہاں تک کہ اس سے پوچھا جائے گا اس کی زندگی کے بارے میں کہ اس نے اسے کہاں خرچ کیا، اسکی جوانی کے بارے میں کہ اس نے اسے کس چیز پر خرچ کیا اور اس کے مال کے بارے میں کہ اسنے اسے کہاں سے حاصل کیا اور کہاں خرچ کیا اور اسکے امام کے بارے میں کہ اسکا امام کون تھا؟ اللہ نے فرمایا ہے: «جس دن ہم ہر قوم کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے» آخر آیت تک۔

ملاحظہ

قَالَ الْمَنْصُورُ حَفِظَهُ اللَّهُ تَعَالَى: هَكَذَا رَوَاهُ، وَفِي الْمُسْنَدِ: «عَنْ حُبِّنَا أَهْلَ الْبَيْتِ»، وَهُوَ شِبْهُ تَأْوِيلٍ، أَسْنَدَهُ دَاوُدُ بْنُ سُلَيْمَانَ [ت۲۰۳ه‍] فِي «مُسْنَدِ الرِّضَا»[۱۲]، وَالْحُسَيْنُ بْنُ سَعِيدٍ [ت‌ق۳ه‍] فِي «الزُّهْدِ»[۱۳]، وَعَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ [ت‌نحو۳۲۹ه‍] فِي «تَفْسِيرِهِ»[۱۴]، وَالطَّبَرَانِيُّ [ت۳۶۰ه‍] فِي «الْمُعْجَمِ الْكَبِيرِ»[۱۵]، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ بَابَوَيْهِ [ت۳۸۱ه‍] فِي «الْخِصَالِ»[۱۶]، وَمُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ النُّعْمَانِ [ت۴۱۳ه‍] فِي «أَمَالِيهِ»[۱۷]، وَأَبُو سَعِيدٍ النَّقَّاشُ [ت۴۱۴ه‍] فِي «فَوَائِدِ الْعِرَاقِيِّينَ»[۱۸]، وَالثَّعْلَبِيُّ [ت۴۲۷ه‍] فِي «الْكَشْفِ وَالْبَيَانِ»[۱۹]، وَالطُّوسِيُّ [ت۴۶۰ه‍] فِي «أَمَالِيهِ»[۲۰]، وَابْنُ الْمَغَازِلِيِّ [ت۴۸۳ه‍] فِي «مَنَاقِبِ عَلِيٍّ»[۲۱]، وَابْنُ عَسَاكِرَ [ت۵۷۱ه‍] فِي «تَارِيخِ دِمَشْقَ»[۲۲]، وَغَيْرُهُمْ، بِأَسَانِيدَ شَتَّى عَنْ عَلِيٍّ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَأَبِي بَرْزَةَ، وَأَبِي بُرْدَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ.

ترجمہ:

منصور حفظہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس نے اسے اسی طرح سے نقل کیاہے اور مسند (روایت) میں (آخری فقرے کی جگہ) آیا ہے: «ہم اہل بیت کی محبت کے متعلق» اور وہ تاویل کی مانند ہے اور داوود ابن سلیمان [م:۲۰۳ھ] نے «مسند الرضا» میں، حسین ابن سعید [م:قرن۳ھ] نے «الزھد» میں، علی ابن ابراہیم [م:حدود۳۲۹ھ] نے اپنی «تفسیر» میں، طبرانی [م:۳۶۰ھ] نے «المعجم الکبیر» میں، محمّد ابن علی ابن بابویہ [م:۳۸ھ] نے «الخصال» میں، محمّد ابن محمّد ابن نعمان [م:۴۱۳ھ] نے اپنی «امالی» میں، ابو سعید نقاش [م:۴۱۴ھ] نے «فوائد العراقیین» میں، ثعلبی [م:۴۲۷ھ] نے «الکشف و البیان» میں، طوسی [م:۴۶۰ھ] نے اپنی «امالی» میں، ابن مغازلی [م:۴۸۳ھ] نے «مناقب علی» میں، ابن عساکر [م:۵۷۱ھ] نے «تاریخ دمشق» میں اور دیگران نے بھی، مختلف اسناد کے ساتھ، علی، ابن عباس، ابو ذر، ابو برزۃ، ابو بردۃ، ابو سعید خدری اور عبد اللہ ابن مسعود نے، رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم سے روایت نقل کی ہے۔

شاہد ۲

وَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ مَسْعُودٍ الْعَيَّاشِيُّ [ت۳۲۰ه‍] فِي «تَفْسِيرِهِ»[۲۳]، عَنْ أَبِي بَصِيرٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ -يَعْنِي جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ الصَّادِقَ- عَلَيْهِ السَّلَامُ أَنَّهُ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ يُدْعَى كُلٌّ بِإِمَامِهِ الَّذِي مَاتَ فِي عَصْرِهِ، فَإِنْ أَثْبَتَهُ أُعْطِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ، لِقَوْلِهِ: ﴿يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ۖ فَمَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَأُولَئِكَ يَقْرَءُونَ كِتَابَهُمْ[۲۴]، وَمَنْ أَنْكَرَهُ كَانَ مِنْ أَصْحَابِ الشِّمَالِ.

ترجمہ:

نیز، محمّد ابن مسعود عیاشی [م:۳۲۰ھ] نے اپنی «تفسیر» میں، ابو بصیر سے، ابو عبد اللہ -یعنی جعفر ابن محمّد صادق- علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ جب قیامت کا دن آئے گا، تو ہر ایک کو اس کے وقت کے امام کے ساتھ بلایا جائے گا، اگر وہ اسے جانتا ہے تو اس کی کتاب اس کے داہنے ہاتھ میں دی جائے گی؛ جیسا کہ فرمایا: «جس دن ہم ہر امت کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے، تو جس کو اس کی کتاب دائیں ہاتھ میں دی جائے گی، وہ اپنی اپنی کتاب پڑھیں گے» اور جس نے اسے نہیں پہچانا وہ بائیں ہاتھ والوں میں سے ہے۔

شاہد ۳

وَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ مَسْعُودٍ الْعَيَّاشِيُّ [ت۳۲۰ه‍] فِي «تَفْسِيرِهِ»[۲۵]، عَنْ عَمَّارٍ السَّابَاطِيِّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ، قَالَ: «لَا تُتْرَكُ الْأَرْضُ بِغَيْرِ إِمَامٍ يُحِلُّ حَلَالَ اللَّهِ وَيُحَرِّمُ حَرَامَهُ، وَهُوَ قَوْلُ اللَّهِ: ﴿يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ۖ[۲۶]»، ثُمَّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ مَاتَ بِغَيْرِ إِمَامٍ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً».

ترجمہ:

نیز، محمّد ابن مسعود عیاشی [م:۳۲۰ھ] نے اپنی «تفسیر» میں، عمار ساباطی سے، انہوں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا: زمین ایسے امام سے خالی نہیں رہے گی جو خدا کے حلال کو حلال اور اسکے حرام کو حرام قرار دیتے ہیں اور یہ خدا کا قول ہے جس نے فرمایا: «جس دن ہم ہر ایک کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے»، پھر فرمایا: خدا کے رسول صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے فرمایا: جو شخص (اپنے زمانے کے) امام کو (پہچانے) بغیر مر گیا وہ جاہلیت کی موت مرا۔

شاہد ۴

وَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ الْكُلَيْنِيُّ [ت۳۲۹ه‍] فِي «الْكَافِي»[۲۷]، قَالَ: حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ شَمُّونٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْقَاسِمِ الْبَطَلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ: ﴿يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ۖ[۲۸]، قَالَ: «إِمَامِهِمُ الَّذِي بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ، وَهُوَ قَائِمُ أَهْلِ زَمَانِهِ».

ترجمہ:

نیز، محمّد ابن یعقوب کلینی [م:۳۲۹ھ] نے کتاب «الکافی» میں نقل فرمایا ہے، وہ کہتے ہیں: علی ابن محمّد نے مجھ سے بیان کیا، انہوں نے سہل ابن زیاد سے، انہوں نے محمّد ابن حسن ابن شمون سے، انہوں نے عبد اللہ ابن عبد الرحمان سے، انہوں نے عبد اللہ ابن قاسم بطل سے، انہوں نے عبد اللہ ابن سنان سے کہ وہ کہتے ہیں: میں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے کہا: «جس دن ہم ہر ایک کو اسکے امام کے ساتھ بلائیں گے» (اس کا کیا مطلب ہے؟) آپ نے فرمایا: یعنی انکے امام کے ساتھ کہ جو انکے درمیان ہے اور وہ اپنے زمانے کا قائم ہے۔

ملاحظہ

قَالَ الْمَنْصُورُ حَفِظَهُ اللَّهُ تَعَالَى: هَكَذَا جَاءَ عَنْ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَامُ[۲۹]، وَهُوَ تَفْسِيرُ الْآيَةِ بِأَنَّ النَّاسَ كُلَّهُمْ يُدْعَوْنَ بِإِمَامِ الْحَقِّ فِي زَمَانِهِمْ لِيَمْتَازَ مَنِ ائْتَمَّ بِهِ عَمَّنْ لَمْ يَأْتَمَّ بِهِ، وَالتَّفْسِيرُ الْآخَرُ أَنَّهَا تَعُمُّ إِمَامَ الْحَقِّ وَإِمَامَ الْبَاطِلِ؛ كَمَا رُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: «بِإِمَامِ زَمَانِهِمُ الَّذِي دَعَاهُمْ فِي الدُّنْيَا إِلَى ضَلَالَةٍ أَوْ هُدًى، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ﴿وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا[۳۰] وَقَالَ: ﴿وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ[۳۱]»[۳۲]، وَالشَّاهِدُ عَلَى هَذَا قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى فِي فَرْعَوْنَ: ﴿يَقْدُمُ قَوْمَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَوْرَدَهُمُ النَّارَ ۖ وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُودُ[۳۳]؛ لِأَنَّهُ يَدُلُّ عَلَى أَنَّ أَئِمَّةَ النَّاسِ فِي الدُّنْيَا يَقْدُمُونَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُورِدُونَهُمُ النَّارَ أَوِ الْجَنَّةَ، وَهَذَا رِوَايَةٌ أُخْرَى عَنْ أَهْلِ الْبَيْتِ:

ترجمہ:

منصور حفظہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس طرح سے علی علیہ السلام سے ہم تک پہنچا ہے اور اس آیت کی تفسیر یہ ہے کہ تمام لوگوں کو انکے زمانے کے امام کے ساتھ بلایا جائے تاکہ آپ کے پیروکاروں کو ان لوگوں سے الگ کریں جنہوں نے آپ کی پیروی نہیں کی اور دوسری تفسیر یہ ہے کہ آیت، حق کے امام اور باطل کے امام کو شامل کرتی ہے؛ جیسا کہ ابن عباس سے روایت ہے: «یعنی اپنے زمانے کے امام کے ساتھ جنہوں نے انہیں دنیا میں گمراہی یا ہدایت کی طرف دعوت دی؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: <اور ہم نے ان کو امام بنایا کہ جنہوں نے ہمارے امر کی طرف ہدایت کی> اور فرمایا: <اور ہم نے ان کو امام بنایا جنہوں نے انہیں آگ کی طرف دعوت دی>» اور اس کا گواہ، خدا کا وہ فرمان ہے جو اس نے فرعون کے بارے میں فرمایا: «قیامت کے دن وہ اپنی قوم کے سامنے ہو گا تو انہیں آگ میں ڈالے گا جو کہ داخل ہونے کے لئے بہت بری جگہ ہے» کیونکہ یہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دنیا میں لوگوں کے امام قیامت کے دن ان سے آگے ہیں، پس وہ انہیں جہنم یا جنت میں لے جائیں گے اور یہ اہل بیت سے ایک دوسری روایت ہے:

شاہد ۵

رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ بَابَوَيْهِ [ت۳۸۱ه‍] فِي «أَمَالِيهِ»[۳۴]، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ الْبَغْدَادِيُّ الْحَافِظُ رَحِمَهُ اللَّهُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْحَسَنُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ زِيَادٍ التُّسْتَرِيُّ مِنْ كِتَابِهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مُوسَى بْنِ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ السَّبِيعِيُّ قَاضِي بَلْخَ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي مُرَيْسَةُ بِنْتُ مُوسَى بْنِ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، وَكَانَتْ عَمَّتِي، قَالَتْ: حَدَّثَتْنِي صَفِيَّةُ بِنْتُ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيَّةُ، وَكَانَتْ عَمَّتِي، قَالَتْ: حَدَّثَتْنِي بَهْجَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ التَّغْلِبِيُّ، عَنْ خَالِهَا عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَنْصُورٍ، وَكَانَ رَضِيعًا لِبَعْضِ وُلْدِ زَيْدِ بْنِ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَامُ، قَالَ: سَأَلْتُ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ عَلَيْهِمَا السَّلَامُ، فَقُلْتُ: حَدِّثْنِي عَنْ مَقْتَلِ ابْنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِيهِ، -فَذَكَرَ الْحَدِيثَ إِلَى أَنْ قَالَ:- «فَسَارَ الْحُسَيْنُ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَأَصْحَابُهُ، فَلَمَّا نَزَلُوا ثَعْلَبِيَّةَ وَرَدَ عَلَيْهِ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ بِشْرُ بْنُ غَالِبٍ، فَقَالَ: يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ! أَخْبِرْنِي عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ۖ[۳۵]، قَالَ: <إِمَامٌ دَعَا إِلَى هُدًى فَأَجَابُوهُ إِلَيْهِ، وَإِمَامٌ دَعَا إِلَى ضَلَالَةٍ فَأَجَابُوهُ إِلَيْهَا، هَؤُلَاءِ فِي الْجَنَّةِ وَهَؤُلَاءِ فِي النَّارِ، وَهُوَ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ[۳۶]>».

ترجمہ:

محمّد ابن علی ابن بابویہ [م:۳۸۱ھ] نے اپنی «امالی» میں نقل کیا ہے، وہ کہتے ہیں: محمّد بن عمر بغدادی حافظ رحمہ اللہ نے ہم سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ابو سعید حسن بن عثمان بن زیاد تستری نے اپنی کتاب سے، ہم سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ابراہیم بن عبید اللہ بن موسى بن یونس بن ابی اسحاق سبیعی قاضی بلخ نے ہم سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: مریسۃ بنت موسى بن یونس بن ابی اسحاق کہ جو میرے چچا تھے انہوں نے مجھ سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: صفیّۃ بنت یونس بن ابی اسحاق ہمدانی کہ جو میرے چچا تھے انہوں نے مجھ سے بیان فرمایا، وہ کہتے ہیں: بہجۃ بنت حارث بن عبد اللہ تغلبی نے مجھ سے بیان کیا، انہوں نے اپنی ماں کے بھائی عبد اللہ ابن منصور کہ جو زید ابن علی علیہ السلام کے بعض بیٹوں کے برادر رضاعی تھے، وہ کہتے ہیں: میں نے جعفر بن محمّد بن علیّ بن الحسین علیہم السلام سے پوچھا، میں نے کہا: مجھے رسول کے بیٹے کی شہادت کی کیفیت سے آگاہ فرمائیں، آپ نے فرمایا: میرے والد نے مجھ سے بیان فرمایا، انہوں نے اپنے والد سے، (پھر آپ نے حدیث بیان فرمائ یہاں تک کہ آپ نے فرمایا:) پس حسین علیہ السلام اور انکے ساتھیوں نے اپنے سفر کو جاری رکھا، پس جیسے ہی ثعلبیہ نامی علاقے میں پہنچے، بشر ابن غالب نامی شخص انکے پاس آیا اور کہا: اے پسر رسول خدا! مجھے کلام خداوند سے آگاہ کریں کہ اس نے فرمایا ہے: «جس دن ہم ہر قوم کو انکے امام کے ساتھ بلائیں گے»، پھر فرمایا: وہ امام جس نے ہدایت کی طرف بلایا اور جنہوں نے انکی اجابت کی اور جس امام نے گمراہی کی دعوت دی اور جنہوں نے انکی اجابت کی، وہ جنت میں ہیں اور وہ جہنم میں ہیں اور یہ ارشاد خداوندی ہے: «کچھ گروہ جنت میں ہیں اور کچھ جہنم میں»۔

شاہد ۶

وَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ مَسْعُودٍ الْعَيَّاشِيُّ [ت۳۲۰ه‍] فِي «تَفْسِيرِهِ»[۳۷]، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ هَمَّامٍ، قَالَ: قَالَ الرِّضَا عَلَيْهِ السَّلَامُ فِي قَوْلِ اللَّهِ: ﴿يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ۖ[۳۸]، فَقَالَ: «إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ قَالَ اللَّهُ: أَلَيْسَ عَدْلٌ مِنْ رَبِّكُمْ أَنْ نُوَلِّيَ كُلَّ قَوْمٍ مَنْ تَوَلَّوْا؟ قَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَيَقُولُ: تَمَيَّزُوا، فَيَتَمَيَّزُونَ».

ترجمہ:

نیز، محمّد بن مسعود عیّاشی [م:۳۲۰ھ] نے اپنی «تفسیر» میں، انہوں نے اسماعیل بن ہمّام سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں: رضا علیہ السلام نے خدا کے اس کلام کے متعلق: «جس میں تمام لوگوں کو انکے امام کے ساتھ بلاؤنگا» فرمایا: جب قیامت کا دن آئے گا، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تیرے رب کا یہ عادلانہ فیصلہ نہیں کہ وہ ہر امت کو اس کے ساتھ شریک کرے جس کی اس نے پیروی کی ہے؟ وہ کہتے ہیں: کیوں، فرماتے ہیں: تو (اس بنیاد پر) ایک دوسرے سے الگ ہو جاؤ! تو وہ الگ ہو جاتے ہیں۔

ملاحظہ

قَالَ الْمَنْصُورُ حَفِظَهُ اللَّهُ تَعَالَى: هَذَا تَفْسِيرُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: ﴿وَكَذَلِكَ نُوَلِّي بَعْضَ الظَّالِمِينَ بَعْضًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ[۳۹]، وَقَدْ وَقَعَ فِي رِوَايَةِ ابْنِ مَسْعُودٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُنَادِي مُنَادٍ: أَيُّهَا النَّاسُ! أَلَيْسَ عَدْلٌ مِنْ رَبِّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَصَوَّرَكُمْ وَرَزَقَكُمْ أَنْ يُوَلِّيَ كُلَّ إِنْسَانٍ مِنْكُمْ مَا كَانَ يَتَوَلَّى فِي الدُّنْيَا؟ قَالَ: فَيَقُولُونَ: بَلَى، قَالَ: فَيَقُولُ: فَلْيَنْطَلِقْ كُلُّ إِنْسَانٍ مِنْكُمْ إِلَى مَا كَانَ يَتَوَلَّى فِي الدُّنْيَا، فَيَنْطَلِقُ كُلُّ إِنْسَانٍ مِنْكُمْ إِلَى مَا كَانَ يَتَوَلَّى فِي الدُّنْيَا»[۴۰].

ترجمہ:

منصور حفظہ اللہ تعالی نے فرمایا: یہ اللہ کے اس فرمان کی تفسیر ہے کہ جو اس نے فرمایا: «اور اسی طرح ہم بعض ظالموں کو بعض پر مسلط کر دیتے ہیں اس چیز کی بنا پر جو وہ کسب کرتے تھے» اور ابن مسعود کی رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم سے روایت میں بھی آیا ہے کہ آپ نے فرمایا: «اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو جمع کرے گا، تو آواز دینے والا آواز دے گا: اے لوگوں! کیا تمہارے رب کے لئے نہیں ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہیں بنایا اور تمہیں رزق دیا کہ وہ ہر انسان کو اس کے ساتھ شریک کرے جو دنیا میں جس کی پیروی کرتا ہے؟ وہ کہتے ہیں: کیوں، پھر فرماتا ہے: اس لئے، ہر انسان کو اس کے ہمراہ ہونا چاہیے جسکی اس نے دنیا میں پیروی کی ہے، اسی طرح ہر انسان کو چاہیے کہ اس کے ساتھ ہو جس کی دنیا میں پیروی کی گئی ہو»۔

شاہد ۷

وَرَوَى عَلَاءُ بْنُ رَزِينٍ فِي «كِتَابِهِ»[۴۱]، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُهُ -يَعْنِي أَبَا جَعْفَرٍ أَوْ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عَلَيْهِمَا السَّلَامُ- عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ۖ[۴۲]، قَالَ: «بِمَا كَانُوا يَأْتَمُّونَ بِهِ فِي الدُّنْيَا، فَيُؤْتَى بِالشَّمْسِ وَالْقَمَرِ، فَيُقْذَفَانِ فِي جَهَنَّمَ وَمَنْ يَعْبُدُهُمَا».

ترجمہ:

نیز، علاء بن رزین نے اپنی کتاب میں محمّد بن مسلم سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے آنحضرت -یعنی ابو جعفر یا ابو عبد اللہ علیہما السلام- سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں پوچھا، کہ اسکا فرمان ہے: «ہم ہر قوم کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے»، آپ نے فرمایا: جس کی انہوں نے اس دنیا میں پیروی کی، پھر وہ سورج اور چاند کو لاتے ہیں اور ان لوگوں کے ساتھ جو انکو پوجتے تھے جہنم میں ڈال دیتے ہیں۔

ملاحظہ

قَالَ الْمَنْصُورُ حَفِظَهُ اللَّهُ تَعَالَى: لَهُمْ فِي هَذَا الْحَدِيثِ مَقَالٌ؛ رَوَى مُقَاتِلُ بْنُ حَيَّانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ قَالَ: «بَيْنَا ابْنِ عَبَّاسٍ ذَاتَ يَوْمٍ جَالِسٌ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ! سَمِعْتُ الْعَجَبَ مِنْ كَعْبٍ الْحَبْرِ يَذْكُرُ فِي الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ! قَالَ: وَكَانَ مُتَّكِئًا فَاحْتَفَزَ، ثُمَّ قَالَ: وَمَا ذَاكَ؟ قَالَ: زَعَمَ أَنَّهُ يُجَاءُ بِالشَّمْسِ وَالْقَمَرِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُمَا ثَوْرَانِ عَقِيرَانِ، فَيُقْذَفَانِ فِي جَهَنَّمَ! قَالَ عِكْرِمَةُ: فَطَارَتْ مِنَ ابْنِ عَبَّاسٍ شِقَّةٌ وَوَقَعَتْ أُخْرَى غَضَبًا، ثُمَّ قَالَ: كَذَبَ كَعْبٌ! كَذَبَ كَعْبٌ! كَذَبَ كَعْبٌ! ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، بَلْ هَذِهِ يَهُودِيَّةٌ يُرِيدُ إِدْخَالَهَا فِي الْإِسْلَامِ، اللَّهُ أَجَلُّ وَأَكْرَمُ مِنْ أَنْ يُعَذِّبَ عَلَى طَاعَتِهِ، أَلَمْ تَسْمَعْ لِقَوْلِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: ﴿سَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَيْنِ ۖ[۴۳]، إِنَّمَا يَعْنِي دُءُوبَهُمَا فِي الطَّاعَةِ، فَكَيْفَ يُعَذِّبُ عَبْدَيْنِ يُثْنِي عَلَيْهِمَا أَنَّهُمَا دَائِبَانِ فِي طَاعَتِهِ! قَاتَلَ اللَّهُ هَذَا الْحَبْرَ وَقَبَّحَ حَبْرِيَّتَهُ! مَا أَجْرَأَهُ عَلَى اللَّهِ وَأَعْظَمَ فِرْيَتَهُ عَلَى هَذَيْنِ الْعَبْدَيْنِ الْمُطِيعَيْنِ لِلَّهِ»[۴۴]. قَالَ الْمَنْصُورُ حَفِظَهُ اللَّهُ تَعَالَى: رَحِمَ اللَّهُ ابْنَ عَبَّاسٍ! فَإِنَّهُ أَخْطَأَ فِي هَذَا الْقَوْلِ، وَذَلِكَ لِأَنَّ كَعْبًا وَإِنْ كَانَ كَمَا قَالَ، إِلَّا أَنَّ الْحَدِيثَ الَّذِي رَوَاهُ فِي الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ مُوَافِقٌ لِكِتَابِ اللَّهِ حَيْثُ يَقُولُ: ﴿إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنْتُمْ لَهَا وَارِدُونَ[۴۵]، وَلَا رَيْبَ أَنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كَانَا مِمَّا يَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ، وَهُمَا جَمَادَانِ لَا يُعَذَّبَانِ بِوُرُودِ النَّارِ، وَإِنَّمَا يَرِدَانِهَا لِيَكُونَ ذَلِكَ خِزْيًا لِعَبَدَتِهِمَا، لَا لِأَنَّهُمَا آثِمَانِ؛ كَمَا قَالَ سُبْحَانَهُ: ﴿لَوْ كَانَ هَؤُلَاءِ آلِهَةً مَا وَرَدُوهَا ۖ وَكُلٌّ فِيهَا خَالِدُونَ[۴۶]، وَهَذِهِ هِيَ الْحَالُ فِي الْحِجَارَةِ الَّتِي جَعَلَهَا اللَّهُ وَقُودَ النَّارِ إِذْ قَالَ: ﴿وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ[۴۷]؛ لِأَنَّهُ مَعْلُومٌ أَنَّ الْحِجَارَةَ لَا إِثْمَ عَلَيْهَا، وَقَدْ وَقَعَ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ فِي مِثْلِ هَذَا الْخَطَأِ؛ كَمَا رَوَى عَبْدُ اللَّهِ الدَّانَاجُ، قَالَ: «سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ زَمَنَ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْقَسْرِيِّ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ -يَعْنِي مَسْجِدَ الْبَصْرَةِ- وَجَاءَ الْحَسَنُ فَجَلَسَ إِلَيْهِ، فَحَدَّثَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَالَ: <إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ثَوْرَانِ فِي النَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ>، فَقَالَ الْحَسَنُ: وَمَا ذَنْبُهُمَا؟ فَقَالَ: أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَتَقُولُ وَمَا ذَنْبُهُمَا؟!»[۴۸]، وَفِي هَذَا عِبْرَةٌ لِمَنْ يَتَعَجَّلُ فِي رَدِّ الْأَحَادِيثِ وَيَتَجَرَّأُ عَلَى الْإِجْتِهَادِ فِي مُقَابِلِ النَّصِّ؛ لِأَنَّهُ قَدْ يَلْتَفِتُ إِلَى وَجْهٍ وَلَا يَلْتَفِتُ إِلَى وَجْهٍ آخَرَ، وَقَدْ رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ بَابَوَيْهِ [ت۳۸۱ه‍] فِي «عِلَلِ الشَّرَائِعِ»[۴۹]، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَهْزِيَارَ، عَنْ أَخِيهِ، عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي بَصِيرٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِمَا السَّلَامُ أَنَّهُ قَالَ: «إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ أُتِيَ بِالشَّمْسِ وَالْقَمَرِ فِي صُورَةِ ثَوْرَيْنِ عَقِيرَيْنِ، فَيُقْذَفَانِ بِهِمَا وَبِمَنْ يَعْبُدُهُمَا فِي النَّارِ، وَذَلِكَ أَنَّهُمَا عُبِدَا فَرَضِيَا»، وَهَذَا التَّعْلِيلُ زِيَادَةٌ مِنَ الرُّوَاةِ؛ لِأَنَّهُ تَعْلِيلٌ بَاطِلٌ يُخَالِفُ كِتَابَ اللَّهِ إِذْ يَحْكِي عَنْ كُلِّ جَمَادٍ يُعْبَدُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنَّهُ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: ﴿إِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغَافِلِينَ[۵۰]، وَلَا يُوجَدُ فِي رِوَايَةِ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ.

ترجمہ:

منصور حفظہ اللہ تعالی نے فرمایا: انہیں اس حدیث کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ مقاتل ابن حیان نے عکرمہ سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں: «جب ابن عباس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور کہا: اے ابن عباس! میں نے کعب الاحبار سے سورج اور چاند کے بارے میں ایک عجیب بات سنی! ابن عباس جو تکیہ کئے ہوئے تھے، سیدھے بیٹھ گئے اور کہا: تم نے کیا سنا؟ فرمایا: اس کا خیال تھا کہ قیامت کے دن سورج اور چاند کو سر بریدہ گائے کی طرح لایا جائے گا اور انہیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا! عکرمہ نے کہا: تو ابن عباس بہت ناراض ہوئے اور تین بارکہا: کعب نے جھوٹ بولا ہے! کعب نے جھوٹ بولا ہے! کعب نے جھوٹ بولا ہے!، بلکہ یہ یہودی فکر ہے جو اسے اسلام میں داخل کرنا چاہتےہیں! خدا کسی کو اس کی اطاعت کی سزا دینے سے بڑا اور معزز ہے! کیا تم نے خدا کا کلام نہیں سنا جو اسکا فرمان ہے: <اس نے تمہارے لئے سورج اور چاند کو مسخر کر دیا جب کہ وہ کوشاں تھے>؟ اس کا مطلب ہے کہ وہ دونوں اس کی اطاعت میں کوشاں ہیں۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے دو بندوں کو عذاب دے جبکہ وہ اس کی اطاعت میں مستعدی کی تعریف کرتا ہے؟! خدا اس پادری کو مار ڈالے اور اس کی یہودی گرائی کو برباد کر دے! وہ خدا کے لئے خود میں کتنی جرأت رکھتا ہے اور خدا تعالیٰ کے اس فرمانبردار بندے پر اسکی کتنی بڑی افترا ہے»! منصور حفظہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: خدا ابن عباس پر رحم کرے! کیونکہ انہوں نے اس بیان میں غلطی کی ہے اور وہ غلطی اس بنا پر ہے کہ اگرچہ کعب اسی طرح تھے جیسا کہ انہوں نے بیان کیا ہے، لیکن انہوں نے سورج اور چاند کے بارے میں جو حدیث بیان کی ہے وہ کتاب خدا کے مطابق ہے، جہاں وہ کہتے ہیں: «یقینا تم سب اور خدا کے علاوہ ہر وہ چیز جسے تم پوجتے ہو، جہنم کے ایندھن بنائے جاؤ گے اور اسی میں داخل کئے جاؤ گے» اور اس میں کوئی شک نہیں کہ سورج اور چاند بھی وہ چیزیں تھیں جن کی لوگ خدا کے بجائے پوجا کرتے تھے، حالانکہ وہ دونوں جمادات میں سے ہیں اور وہ آگ میں داخل ہونے کے بعد بھی عذاب میں مبتلا نہیں ہونگے، اور وہ اس میں صرف اس لئے داخل ہونگے تاکہ انکی پوجا کرنے والے ذلیل و خوار ہوں، اس لئے نہیں کہ وہ دونوں گناہ گار ہیں؛ جیسا کہ اس کا فرمان ہے: «اگر وہ معبود ہوتے تو آگ میں داخل نہ ہوتے اور وہ سب اس میں ہمیشہ رہیں گے» اور یہی بات ان پتھروں کے بارے میں بھی صادق ہے جنہیں خدا نے جہنم کی لکڑی بنایا ہے؛ جیسا کہ اس کا فرمان ہے: «آگ کی لکڑی وہ لوگ اور پتھر ہیں»؛ کیونکہ یہ واضح ہے کہ پتھر گناہ نہیں کرتے۔ نیز، حسن بصری نے بھی ایسی ہی غلطی کی؛ جیسا کہ عبد اللہ داناج نے روایت کی ہے کہ: «میں نے ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن کو خالد بن عبد اللہ القسری کے زمانے میں اس مسجد میں -یعنی بصرہ کی مسجد میں- حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، جب حسن آئے اور ان کے پاس بیٹھ گئے۔ بیان فرمایا: ہم سے ابو ہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے فرمایا: <یقیناً سورج اور چاند قیامت کے دن آگ میں دو گائے کے طرح ہوں گے>، تو حسن نے کہا: دونوں کا گناہ کیا ہے؟! (ابو سلمہ) نے کہا: میں تمہیں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی حدیث سناتا ہوں، اور تم کہتے ہو کہ ان دونوں کا گناہ کیا ہے؟!» یہ ان لوگوں کے لئے عبرت ہے جو احادیث کو رد کرنے میں جلدی کرتے ہیں اور نص کے خلاف اجتہاد کرنے کی جسارت کرتے ہیں؛ کیونکہ شاید وہ ایک پہلو پر توجہ دیتے ہیں اور دوسرے پہلو پر توجہ نہیں دیتے۔ محمّد بن علی ابن بابویہ [م:۳۸۱ھ] نے بھی کتاب «علل الشرائع» میں اپنے والد سے، سعد بن عبد اللہ سے، انہوں نے ابراہیم بن مہزیار سے، اپنے بھائی سے، احمد بن محمّد سے، حماد ابن عثمان سے، ابو بصیر سے، ابو عبد اللہ جعفر ابن محمّد علیہما السلام سے روایت کی ہےکہ وہ فرماتے ہیں: «جب قیامت کا دن آئے گا، تو سورج اور چاند سر بریدہ گائے کی طرح لائے جائیں گے اور وہ ان لوگوں کے ساتھ آگ میں ڈال دیے جائیں گے جو ان کی عبادت کرتے تھے اور یہ اس لئے کہ وہ اپنی عبادت سے مطمئن تھے» اور یہ علت کہ جو (آخر حدیث میں آئی ہے) راویوں کی طرف سے اضافہ ہے؛ کیونکہ یہ ایک جھوٹی وجہ ہے جو خدا کی کتاب سے منافات رکھتی ہے، جہاں ہر وہ جمادات کہ جو خدا کے علاوہ پوجا جاتا ہے اسکے لئے حکایت ہے کہ وہ قیامت میں بولے گا: «ہم تیری عبادت سے بے خبر تھے» اور (یہ اضافہ) محمّد بن مسلم کی روایت میں موجود نہیں ہے۔

↑[۱] . عيون أخبار الرضا لابن بابويه، ج۲، ص۳۶ و ۳۷
↑[۲] . الإسراء/ ۷۱
↑[۳] . تفسير الثعلبي، ج۶، ص۱۱۵
↑[۴] . الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي، ج۵، ص۵۲۸
↑[۵] . تفسير القرطبي، ج۱۰، ص۲۹۷
↑[۶] . الدر المنثور في التفسير بالمأثور للسيوطي، ج۵، ص۳۱۷
↑[۷] . الإسراء/ ۱۵
↑[۸] . النّحل/ ۱۲۵
↑[۹] . تفسير الطبري، ج۱۵، ص۸
↑[۱۰] . تاريخ اليعقوبي، ج۲، ص۹۰
↑[۱۱] . الإسراء/ ۷۱
↑[۱۲] . مسند الرضا لداود بن سليمان الغازي، ص۶۵
↑[۱۳] . الزهد للحسين بن سعيد، ص۹۴
↑[۱۴] . تفسير عليّ بن إبراهيم القميّ، ج۲، ص۱۹ و ۲۰
↑[۱۵] . المعجم الكبير للطبراني، ج۱۱، ص۱۰۲
↑[۱۶] . الخصال لابن بابويه، ص۲۵۳
↑[۱۷] . أمالي المفيد، ص۳۵۳
↑[۱۸] . فوائد العراقيين لأبي سعيد النقاش، ص۴۹
↑[۱۹] . تفسير الثعلبي، ج۱۰، ص۲۰۸
↑[۲۰] . أمالي الطوسي، ص۵۹۳
↑[۲۱] . مناقب علي لابن المغازلي، ص۱۷۵
↑[۲۲] . تاريخ دمشق لابن عساكر، ج۴۲، ص۲۵۹
↑[۲۳] . تفسير العيّاشي، ج۲، ص۳۰۲
↑[۲۴] . الإسراء/ ۷۱
↑[۲۵] . تفسير العيّاشي، ج۲، ص۳۰۳
↑[۲۶] . الإسراء/ ۷۱
↑[۲۷] . الكافي للكليني، ج۱، ص۵۳۶ و ۵۳۷
↑[۲۸] . الإسراء/ ۷۱
↑[۲۹] . دیکھۓ: تفسير القرطبي، ج۱۰، ص۲۹۷؛ فتح القدير للشوكاني، ج۳، ص۲۹۲.
↑[۳۰] . الأنبیاء/ ۷۳
↑[۳۱] . القصص/ ۴۱
↑[۳۲] . تفسير سفيان الثوري، ص۱۷۴؛ تفسير البغوي، ج۳، ص۱۴۵
↑[۳۳] . هود/ ۹۸
↑[۳۴] . أمالي ابن بابويه، ص۲۱۷
↑[۳۵] . الإسراء/ ۷۱
↑[۳۶] . الشورى/ ۷
↑[۳۷] . تفسير العيّاشي، ج۲، ص۳۰۴ و ۳۰۵
↑[۳۸] . الإسراء/ ۷۱
↑[۳۹] . الأنعام/ ۱۲۹
↑[۴۰] . تعظيم قدر الصلاة لمحمد بن نصر المروزي، ج۱، ص۲۹۷؛ تفسير الطبري، ج۲۳، ص۱۹۰؛ التوحيد لابن خزيمة، ج۲، ص۵۸۳؛ الفوائد الشهير بالغيلانيات لأبي بكر الشافعي، ج۲، ص۷۹۴؛ رؤية اللّه للدارقطني، ص۲۶۴؛ المستدرك على الصحيحين للحاكم، ج۴، ص۶۳۲؛ فتح الباري لابن حجر، ج۱۱، ص۴۴۸
↑[۴۱] . الأصول الستة عشر لعدة من المحدثين (أصل علاء بن رزين)، ص۱۵۶
↑[۴۲] . الإسراء/ ۷۱
↑[۴۳] . إبراهیم/ ۳۳
↑[۴۴] . تاريخ الطبري، ج۱، ص۶۵
↑[۴۵] . الأنبیاء/ ۹۸
↑[۴۶] . الأنبیاء/ ۹۹
↑[۴۷] . البقرة/ ۲۴
↑[۴۸] . مسائل أحمد (رواية ابنه أبي الفضل صالح)، ج۲، ص۶۷ و ۶۸؛ مسند البزار، ج۱۵، ص۲۴۳؛ مجموع فيه مصنفات أبي العباس الأصم وإسماعيل الصفار، ص۱۸۳
↑[۴۹] . علل الشرائع لابن بابويه، ج۲، ص۶۰۵
↑[۵۰] . یونس/ ۲۹
ھم آہنگی
ان مطالب کو آپ اپنے دوستوں کے ساتھ بھی شیئر کریں تاکہ دینی معلومات کو پھیلانے میں مدد ملے۔ نئی چیز سیکھنے کا شکر دوسروں کو وہی چیز سکھانے میں ہے۔
ایمیل
ٹیلیگرام
فیسبک
ٹویٹر
اس متن کا نیچے دی ہوئ زبانوں میں بھی مطالعہ کر سکتے ہیں
اگر دوسری زبان سے واقفیت رکھتے ہیں تو اِس متن کا اُس زبان میں ترجمہ کر سکتے ہیں۔ [ترجمے کا فارم]