ہفتہ ۲۰ اپریل ۲۰۲۴ برابر ۱۱ شوّال ۱۴۴۵ ہجری قمری ہے
منصور ہاشمی خراسانی
حضرت علّامہ منصور ہاشمی خراسانی حفظہ اللہ تعالی کے دفتر کے معلوماتی مرکز (ویب سایٹ) کا اردو زبان میں آغاز ہو گیا ہے۔
loading
سبق
 
مقدّمہ
مقدّمہ

مقدّمہ

حضرت علاّمہ منصور ہاشمی خراسانی حفظہ اللہ تعالی کے اسباق کہ ان کا مقصد لوگوں کی آبیاری کرنا اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دینا اور ان کا محور و اساس قرآن و سنّت اور ان کا موضوع اسلامی عقائد و احکام و اخلاقیات ہے اور ہم نے ان میں سے ایک ایسی چیز کا انتخاب کیا ہے جو زیادہ اہم اور متعلّقہ ہے اور ہم نے اسے اسطرح مرتّب کیا ہے کہ صاحب تحقیق و مطالعہ کے لۓ آسان ہو اور ہم نے ان کے لۓ اقتباسات اور کچھ ضروری وضاحتوں سمیت تبصرے لکھے ہیں۔

***

ہر سبق ایک اعتقادی، فقہی یا اخلاقی مسلے کے بارے میں ہے اور تین، ابواب پر مشتمل ہے:

پہلا باب قرآن کی آیات کا اظہار ہے جو مذکورہ مسائل سے متعلّق ہیں اور جن میں حضرت علاّمہ حفظہ اللہ کی قیمتی تفسیریں، ان کے روشن خطابات آیات کے معانی سے اس طرح اخذ کۓ گۓ ہیں کہ جو دلوں کو سکون اور لوگوں کو اندھیرے سے روشنی کی طرف لاتے ہیں، وضاحت کرتا ہے۔

دوسرے باب میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی وہ صحیح احادیث بیان کی گئ ہیں جو نیز مذکورہ مسائل سے متعلّق دلائل اور انکے نتائج کو بیان کرتی ہیں اور جن میں علاّمہ حفظہ اللہ تعالی کی طرف سے دقیق نکات اور مفید وضاحتیں دی گئ ہیں کہ جو احادیث کے معنی، راویان کی حالت اور علماء کے نظریے کو بیان کرتی ہیں۔

تیسرے باب میں اہلبیت علیہم السلام کی صحیح احادیث بیان کی گئ ہیں جو نیز مذکورہ مسائل سے متعلّق شواہد اور انکے نتائج کو بیان کرتی ہیں اور اس میں دوسرے باب میں مذکور چیزوں کی طرح ہے۔

***

قاعدہ حضرت علاّمہ حفظہ اللہ تعالی کے نزدیک خبر متواتر کا حجّت ہونا اور خبر واحد کا حجّت نہ ہونا ہے خبر متواتر اس کے نزدیک وہ ہے جو ہر طبقے کے چار سے زیادہ مردوں نے بیان کی ہو، اس شرط کے ساتھ کے وہ ایک دوسرے کے نزدیک نہ ہوں اور معنی میں اختلاف نہ رکھتے ہوں اور جو کچھ انھوں نے بیان کیا ہے وہ خدا کی کتاب یا پیغمبر صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے ثابت شدہ روایت یا عقل سلیم سے متصادم نہ ہو۔ اسی طرح وہ چیز جو ہر طبقے کے چار مردوں نے بیان کی ہے وہ خبر متواتر کے حکم میں ہے یعنی وہ ایک نتیجہ ہے اس شرط کے ساتھ کے وہ پچھلی تین شرائط کے علاوہ وہ عادل ہوں اور یہی بات چار مردوں سے زیادہ نہ ہونے پر راویوں کی حالت کا جائزہ لینا ضروری بناتی ہے۔ لیکن ان کی حالت کا جائزہ جب بھی وہ اس تعداد سے کم یا زیادہ ہوں تو یہ وہی کام ہے جو علاّمہ حفظہ اللہ تعالی ذمّہ داری سے انجام دیتے ہیں کیونکہ اکثر مسلمان کسی ایک ثقہ یا اخلاص کی خبر کی صداقت پر یقین رکھتے ہیں اور جو کچھ پانچ آدمیوں نے بیان کیا ہے اسکو متواتر نہیں سمجھتے۔ لہذا حضرت علاّمہ حفظہ اللہ تعالی ثقہ یا حقّانیت کے راویوں نے جو کچھ بیان کیا ہے اسے اختیار کرتے ہیں تاکہ انکے اوپر حجّت ہو اور وہ ہدایت پایئں۔

***

البتّہ احادیث کی سند کے لۓ علاّمہ حفظہ اللہ تعالی کی شرط یہ ہے کہ ان کے معنی کو خدا کی کتاب، اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ و سلّم سے ثابت شدہ اور عقل سلیم کے مطابق ڈھالنے کے بعد ان کے راویوں کی روایت ان لوگوں پر ثقہ یا دیانت دارانہ ہے جو ان کے مذہب والے ہیں، ان کے مخالف نہیں؛ جیسا کہ جابر ابن یزید جعفی نے حالیہ تشریح میں بیان کیا ہے اورفرمایا ہے:

«الْمُعْتَمَدُ حَالُ الرَّجُلِ عِنْدَ أَصْحَابِهِ؛ لِأَنَّهُمْ أَعْرَفُ بِحَالِهِ، وَلَا حُجَّةَ فِي قَوْلِ سَائِرِ النَّاسِ إِذَا خَالَفَ قَوْلَ أَصْحَابِهِ؛ لِأَنَّهُمْ أَبْعَدُ مِنْهُ وَقَدْ يَقُولُونَ فِيهِ شَنَآنًا لِمَذْهَبِهِ، وَالشَّاهِدُ عَلَى ذَلِكَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِلْيَهُودِ: <أَيُّ رَجُلٍ فِيكُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ؟> فَقَالُوا: <خَيْرُنَا وَابْنُ خَيْرِنَا، وَسَيِّدُنَا وَابْنُ سَيِّدِنَا، وَعَالِمُنَا وَابْنُ عَالِمِنَا>، فَقَبِلَ قَوْلَهُمْ فِيهِ؛ لِأَنَّهُمْ كَانُوا أَصْحَابَهُ، ثُمَّ أَخْبَرَهُمْ بِأَنَّهُ قَدْ أَسْلَمَ، فَوَقَعُوا فِيهِ وَقَالُوا: <شَرُّنَا وَابْنُ شَرِّنَا>، فَلَمْ يَقْبَلْ قَوْلَهُمْ فِيهِ بَعْدَ أَنْ خَالَفُوهُ فِي الْمَذْهَبِ، وَلَوْ قُبِلَ قَوْلُ الْمُخَالِفِينَ فِي الْمَذْهَبِ لَمْ يَبْقَ مِنَ الْحَدِيثِ شَيْءٌ؛ لِأَنَّ كُلَّ طَائِفَةٍ يُسِيئُونَ الْقَوْلَ فِي الْأُخْرَى؛ كَمَا تَرَى الشِّيعَةَ لَا يُبَالُونَ بِمَا يَرْوِيهِ السُّنَّةُ إِلَّا مَا يَتَّخِذُونَهُ حُجَّةً عَلَيْهِمْ، وَتَرَى السُّنَّةَ لَا يَنْظُرُونَ فِيمَا يَرْوِيهِ الشِّيعَةُ إِلَّا تَعَجُّبًا وَاسْتِهْزَاءً، وَكِلَاهُمَا قَدْ ضَلَّ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ، وَلَكِنَّا نَأْخُذُ بِكُلِّ مَا يَرْوِيهِ الْمُسْلِمُونَ مُوَافِقًا لِكِتَابِ اللَّهِ إِذَا كَانُوا مِنَ الْمَعْرُوفِينَ بِالصِّدْقِ عِنْدَ أَصْحَابِهِمْ دُونَ تَعَصُّبٍ لِأَحَدٍ مِنَ الْمَذَاهِبِ»؛ «معیار، شخص کی حالت اسکے ساتھیوں کے نزدیک ہے (یعنی اسکے مذہب والے) کیونکہ وہ اس کی حالت سے زیادہ واقفیت رکھتے ہیں اور دوسرے لوگوں کی راۓ جب بھی اسکے ساتھیوں کے قول کے خلاف ہو، تو حجّت نہیں ہے؛ کیونکہ وہ اس سے بہت دور ہیں اور ہو سکتا ہے کہ اسکے مذہب کی ناپسندیدگی کی بناء پر وہ اسے برا بھلا کہیں اس کا ثبوت پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کا کام ہے جو آپ نے یہودیوں سے فرمایا: ’عبد اللہ بن سلام تم میں سے کیسا آدمی ہے؟‘ تو انہوں نے کہا: ’ہم میں اچھّا اور ہم میں اچھّے کا بیٹا، اور ہمارا سرور اور ہمارے سرور کا بیٹا اور ہمارا عالم اور ہمارے عالم کا بیٹا‘ تو انھوں نے اس کے بارے میں جو کہا اسے قبول کر لیا؛ کیونکہ وہ اسکے ساتھی تھے، اور پھر جب انھیں اطّلاع ملی کہ وہ مسلمان ہو گیا تو انھوں نے بہتان تراشی شروع کر دی اور کہنے لگے: ’ہم میں سب سے برا اور ہم میں سب سے برے کا بیٹا‘ لیکن اسکے بعد کے جب وہ مذہب میں اسکے مخالف ہو گۓ تو انکی باتوں کو اسکے بارے میں قبول نہیں کیا اور اگر مذہب میں مخالفین کی بات قبول کر لی جاۓ تو حدیث میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہے گا کیونکہ ہر قبیلہ دوسرے قبیلے کو برا بھلا کہتا ہے؛ جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ شیعہ اہل سنّت کی روایت پر عمل نہیں کرتے سواۓ اسکے جو وہ اپنے خلاف دلیل کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور دیکھتے ہو کہ اہل سنّت شیعوں کی روایت کو حیرانی اور طنز کے علاوہ نہیں دیکھتے اور وہ دونوں ہی راستے کو درمیان سے کھو چکے ہیں، لیکن ہم ہر اس چیز کو قبول کرتے ہیں جو مسلمان خدا کی کتاب کے مطابق بیان کرتے ہیں جب بھی اپنے ساتھیوں کے نزدیک سچ کہنے میں مشہور ہونگے کسی بھی مذاہب کے ساتھ بغیر تعصّب رکھے ہونگے»۔

لہذا حضرت علاّمہ حفظہ اللہ تعالی کے لۓ جو معیار ہے وہ اسلام ہے اور راوی کی اپنے قبیلے کے ساتھ امانت یا دیانت کی شرط ہے، نا کہ اسکے مذہب یا مخالفین کی کمزوریاں بغیر کسی قابل قبول وجہ کے۔ تو اگر راوی اہل سنّت میں سے ہے تو اسکی حالت کا معیار اہل سنّت کے ساتھ ہے اور اسکی حالت شیعوں کے نزدیک معیار نہیں ہے اور اگر راوی شیعہ ہے تو اسکی حالت کا معیار شیعوں کے پاس ہے اور اسکی حالت اہل سنّت کے نزدیک معیار نہیں ہے اور شیعہ اور سنّی روایات میں کوئ فرق نہیں ہے جب وہ مذکورہ بالا تین اصولوں سے ہم آہنگ ہوں اور انکے راوی اپنے مذہب میں اپنی امانتداری یا دیانت داری کے لۓ جانے جاتے ہوں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حضرت علاّمہ حفظہ اللہ تعالی شیعوں کی روایتوں کو اہل سنّت کی روایات کی طرح اختیار کرتے ہیں اور کسی کی بھی روایت کو اسکے مذہب کی وجہ سے نہیں چھوڑتے جب کہ اسکا مذہب دین کی ضرورت کے خلاف نہ ہو، اس طریقے سے جو اسے اسلام سے خارج کر دے؛ کیونکہ اس صورت میں وہ منافق ہے اور منافق کسی بھی طرح سے قابل اعتماد نہیں ہے حالانکہ تمام لوگ اسے ثقہ سمجھتے ہوں۔

***

لیکن ہر سبق کے تین ابواب میں حضرت علاّمہ حفظہ اللہ تعالی کا طریقہ درج ذیل ہے:

ذکر آیات یا احادیث صحیح اور یہ وہ صورتیں ہیں جنکو ہم اصل اعداد کے ساتھ شمار کرتے ہیں (آیت ۱، آیت ۲، آیت ۳، اور اسی ترتیب / حدیث ۱، حدیث ۲، حدیث ۳، اسی ترتیب سے) اور انکو «اصول» کہتے ہیں۔

شواہد اور متابعات کا تذکرہ اس صورت میں کہ اپنی قوّت بڑھانے کے لۓ مستند احادیث تلاش کرتے ہیں اور یہ وہ صورتیں ہیں جنکو ہم فرعی نمبروں میں شمار کرتے ہیں (حدیث ۱-۱، حدیث ۱-۲، حدیث ۱-۳ اور اسی ترتیب سے) اور اسکو «شواہد» کہتے ہیں۔

آیت یا مسائل جو از لحاظ معنی حدیث سے مربوط ہو راویوں کی حالت، علماء کی آراء وغیرہ کے بارے میں حضرت علاّمہ حفظہ اللہ تعالی کا بیان اگر یہ موجود ہوں اور اسی کو ہم «ملاحظہ» کہتے ہیں۔

***

حضرت علاّمہ حفظہ اللہ تعالی کے دروس میں سے «پہلے درس» کے تسلسل میں آتا ہے اور وہ ایک درس آنجناب سے اس بارے میں ہے کہ «زمین ایک عالم مرد سے ان تمام ادیان میں کہ جس میں خدا نے اپنے حکم سے خلیفہ، امام، اور رہنما قرار دیا خالی نہیں رہتی»؛ جیسا کہ ہمارے دوستوں کی ایک جماعت نے ہمیں اطّلاع دی ، انھوں نے بتایا: منصور ہاشمی خراسانی حفظہ اللہ تعالی نے اپنی بعض ملاقاتوں میں ہمارے لۓ املا کیا، اور فرمایا:

«بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ الطَّاهِرِينَ، وَأَمَّا بَعْدُ، فَاعْلَمُوا -عِبَادَ اللَّهِ- بِأَنَّ اللَّهَ حَكِيمٌ لَطِيفٌ، وَمِنْ حِكْمَتِهِ وَلُطْفِهِ أَنَّهُ لَمْ يَتْرُكِ الْأَرْضَ مُنْذُ أَسْكَنَهَا بَنِي آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ مِنْ عَالِمٍ عَادِلٍ جَعَلَهُ لَهُمْ إِمَامًا يَهْدِيهِمْ بِأَمْرِهِ»؛ «خدا کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بخشنے والا اور مہربان ہے۔ تمام تعریفیں خدا کے لۓ ہیں جو جہانوں کا پالنے والا ہے اور درود محمّد اور اسکے پاکیزہ خاندان پر و امّا بعد ، جانو- اے اللہ کے بندوں- کہ خدا حکمت اور مہربانی کا سر چشمہ ہے اور اسکی حکمت اور لطف یہ ہے کہ- جب سے اس نے بنی آدم علیہ السّلام کو زمین پر آباد کیا ہے تب سے بغیر ایک عادل عالم کے کہ جسکو انکے (بنی آدم) لۓ امام بنایا ہے تاکہ انکی خدا کے امر کی طرف ہدایت کرے خالی نہیں چھوڑا ہے»۔

پھر اس پر دلالت کرنے والی آیات اور صحیح احادیث کا ذکر کرنے لگے۔

ھم آہنگی
ان مطالب کو آپ اپنے دوستوں کے ساتھ بھی شیئر کریں تاکہ دینی معلومات کو پھیلانے میں مدد ملے۔ نئی چیز سیکھنے کا شکر دوسروں کو وہی چیز سکھانے میں ہے۔
ایمیل
ٹیلیگرام
فیسبک
ٹویٹر
اس متن کا نیچے دی ہوئ زبانوں میں بھی مطالعہ کر سکتے ہیں
اگر دوسری زبان سے واقفیت رکھتے ہیں تو اِس متن کا اُس زبان میں ترجمہ کر سکتے ہیں۔ [ترجمے کا فارم]