جمعرات ۲۸ مارچ ۲۰۲۴ برابر ۱۷ رمضان ۱۴۴۵ ہجری قمری ہے
منصور ہاشمی خراسانی
حضرت علّامہ منصور ہاشمی خراسانی حفظہ اللہ تعالی کے دفتر کے معلوماتی مرکز (ویب سایٹ) کا اردو زبان میں آغاز ہو گیا ہے۔
loading
قول
 

أَخْبَرَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ عَبْدِ الْقَيُّومِ، قَالَ: سَأَلْتُ الْمَنْصُورَ الْهَاشِمِيَّ الْخُرَاسَانِيَّ عَنِ الْأَخْذِ بِالرِّوَايَةِ، فَكَرِهَهُ وَقَالَ: مَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنْ رِوَايَةٍ إِلَّا مَا تَوَاتَرَ عَلَيْهَا الْأَلْسُنُ، وَذَلِكَ لِأَنَّ اللَّهَ لَا يُعْبَدُ بِالظَّنِّ وَإِنَّمَا يُعْبَدُ بِالْيَقِينِ! قُلْتُ: وَمَا حَدُّ التَّوَاتُرِ؟ قَالَ: مَا يَسْتَيْقِنُ بِهِ عُقَلَاءُ النَّاسِ، قُلْتُ: وَكَمْ ذَا؟ قَالَ: أَرْبَعَةُ رِجَالٍ ذَوِي عَدْلٍ إِذَا لَمْ يَخْتَلِفُوا، كَمَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿لَوْلَا جَاءُوا عَلَيْهِ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ ۚ فَإِذْ لَمْ يَأْتُوا بِالشُّهَدَاءِ فَأُولَئِكَ عِنْدَ اللَّهِ هُمُ الْكَاذِبُونَ![۱] قُلْتُ: رُبَّمَا يَخْتَلِفُونَ فِي أَلْفَاظِهِمْ وَالْمَعْنَى وَاحِدٌ، قَالَ: لَا بَأْسَ بِهِ، وَلَا يَكُونَ بَعْضُهُمْ قُرَنَاءَ بَعْضٍ فَيُتَّهَمُوا فِي رِوَايَتِهِمْ! ثُمَّ مَكَثَ هُنَيَّةً، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ السَّلَفِيَّةَ تَرَكُوا الْعَقْلَ فَشَاهَتْ وُجُوهُهُمْ!

قول کا ترجمہ:

عبدالسلام بن عبد القیوم بلخی نے ہمیں خبر دی، وہ کہتے ہیں: میں نے منصور ہاشمی خراسانی سے اخذ روایت کے متعلق سوال کیا، یہ سوال آپ کو پسند نہیں آیا اور آپ نے فرمایا: خدا نے کوئی روایت نازل نہیں کی، سوائے اس کے جو زبانوں پر تواتر کے ساتھ آئی ہو، اور یہ اس لئے ہے کہ خدا کی عبادت شک اور شبہ کے ساتھ نہیں کی جاتی، بلکہ اسکی عبادت صرف یقین کے ساتھ ہوتی ہے! میں نے کہا: تواتر کی حد کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ایسی چیز جس پر لوگوں کے ذہنوں کو یقین ہو جائے! میں نے کہا: وہ کتنے لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا: چار نیک آدمی جب ان کا آپس میں اختلاف نہ ہو؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: «کیوں اس پر چار گواہ نہیں لیکر آئے؟! چونکہ وہ اس پر چار گواہ نہیں لائے، لہذا وہ خدا کے نزدیک جھوٹے ہیں!» میں نے کہا: ہو سکتا ہے کہ ان کے الفاظ میں اختلاف ہو، لیکن معنی ایک ہی ہوں! آپ نے فرمایا: کوئی حرج نہیں ہے، ان میں سے بعض، بعض کے ساتھی نہ ہوں کہ ان کی روایت پر الزام لگایا جائے (کہ انہوں نے ایک دوسرے سے اخذ کیا ہے یا ایک دوسرے سے ملا کر پیش کیا ہے)! اس وقت آپ کچھ دیر خاموش رہے اور پھر فرمایا: بے شک سلفیوں نے عقل کو چھوڑ دیا ہے، پس ان کا چہرہ بدصورت ہو گیا!

قول کی شرح:

آنجناب کے اس قول سے اور انکی دیگر تقاریر سے معلوم ہوتا ہے کہ «تواتر»، متعدد راویوں سے حدیث بیان کرنے کو کہتے ہیں، انکا کذب اور خطا پر اتفاق انکے الگ الگ اور جدا جدا ہونے کے اعتبار سے معقول نہیں ہے اور اس جہت سے، یہ اس حدیث کے صدور پر عقلی طور پر یقین کا سبب قرار پاتا ہے، البتہ اس میں راویوں کے تعداد کی کوئی حد نہیں ہے؛ کیونکہ آپ نے ابتداء میں اسکی کوئی حد معین نہیں کی، بلکہ آپ نے فرمایا: «مَا يَسْتَيْقِنُ بِهِ عُقَلَاءُ النَّاسِ»؛ «وہ چیز کہ جس پر لوگوں کی عقلیں یقین حاصل کر لیتی ہیں»، لیکن پھر اسکے بعد سوال کرنے والے نے اپنے سوال کو دہرایا، تواتر کے لئے ایک حد معین کی ہے اور وہ چار مرد ہیں؛ اس لئے کہ یہ وہ عدد ہے کہ جسے خدا نے اپنے لئے مہم ترین شہادت اور گواہی کے لئے معین فرمایا ہے اور ان سے کم کو جھوٹ شمار کیا ہے اور فرمایا ہے: ﴿لَوْلَا جَاءُوا عَلَيْهِ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ ۚ فَإِذْ لَمْ يَأْتُوا بِالشُّهَدَاءِ فَأُولَئِكَ عِنْدَ اللَّهِ هُمُ الْكَاذِبُونَ[۲]؛ «کیوں اس پر وہ چار گواہ لیکر نہیں آئے؟! پس چونکہ وہ چار گواہ نہیں لائے، لہذا وہ خدا کے نزدیک جھوٹے ہیں» اور حسّ بھی اسی حد اور تعداد کے موافق ہیں، جب بھی چار عادل مرد ہوں اور آپس میں کوئی خاص اختلاف بھی نہ رکھتے ہوں اور انمیں سے بعض، بعض کے مثل نہ ہوں اس طرح سے کہ انکی روایت ایک دوسرے سے اخذ کی ہوئی یا ایک دوسرے سے ملی جلی نہ کہلائی جائے۔ اسی لئے متواتر حدیثوں کی چار شرطیں ہیں:

۱۔ ہر طبقے میں اس حدیث کے راوی چار آدمیوں سے کم نہ ہوں۔

۲۔ اگر ہر طبقے میں چار آدمی سے زیادہ راوی نہ ہوں تو ضروری ہے کہ اسکے راوی عادل ہوں، لیکن اگر راوی زیادہ ہوں تو یہ شرط ختم ہو جاتی ہے۔

۳۔ راویوں میں اس کے معنی میں اختلاف نہیں ہو، اگر چہ کہ اس کے الفاظ میں اختلاف ہو۔

۴۔ راویوں پر آپس میں ملی بھگت کا الزام نہ ہو، اگر ہر طبقے میں چار سے زیادہ آدمی نہ ہوں تب، لیکن اگر زیادہ ہوں تو یہ شرط ختم کردی جاتی ہے؛ کیونکہ ان کی کثرت اور ایک دوسرے سے جدا جدا ہونے کی وجہ سے، وہ ایک دوسرے کے ساتھ ملی بھگت نہیں کر سکتے ہیں۔

لیکن آنجناب کا ان سلفیوں کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ خدا اور اس کے مذہب کو جاننے کے لئے عقل سے کام نہیں لیتے ہیں، اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ ان پر لعنت بھیجی جائے اس بڑی کوتاہی کے لئے جس کی وجہ سے ان کے عقائد اور عمل میں بہت سے انحرافات پیدا ہوئے ہیں؛ جیسا کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے جنگ بدر میں مٹھی بھر خاک لے کر مشرکین کے چہرے پر مارا اور فرمایا: «شَاهَتِ الْوُجُوهُ»؛ «ان کے چہرے بدصورت ہوں» اور دوسرا اعلان کرنا کہ جس نے بہت سے مفتیوں اور ان کے بزرگوں کے چہرے کو بدصورت بنا دیا ہے اور یہ وہ چیز ہے جو دیکھنے والوں سے پوشیدہ نہیں ہے، اس لحاظ سے یہ عقل کو چھوڑنے کی وجہ سے وہ آج یہ دن دیکھ رہے ہیں؛ جیسا کہ ہمارے ایک دوست نے ہمیں اطلاع دی، وہ کہتے ہیں:

«قُلْتُ لِلْمَنْصُورِ: إِنِّي رَأَيْتُ فِي الْمَسْجِدِ رَجُلًا كَأَنَّ رَأْسَهُ رَأْسُ حِمَارٍ، فَكَلَّمْتُهُ فَإِذَا هُوَ مِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ! قَالَ: أَعَجِبْتَ مِنْ ذَلِكَ؟! أَلَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَظُنُّ أَنَّهُ لَوْ كَانَ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ مَسْخٌ لَكَانَ فِي أَصْحَابِ الْحَدِيثِ! قُلْتُ: لِمَ ذَلِكَ؟! قَالَ: لِأَنَّهُمْ فُتِنُوا بِالْحَدِيثِ، فَتَرَكُوا كِتَابَ اللَّهِ وَتَرَكُوا عُقُولَهُمْ، وَلَوْ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَدْرَكَهُمْ لَأَلْحَقَهُمْ بِجَزَائِرِ الْبَحْرِ»؛ «منصور سے کہا: میں نے مسجد میں ایک آدمی کو دیکھا گویا اس کا سر گدھے کے سر کی طرح تھا، تو میں نے اس سے بات کی تو معلوم ہوا کہ وہ اہل حدیث میں سے ہے! آپ نے فرمایا: کیا تمہیں اس پر تعجب ہوا؟! جان لو! خدا کی قسم میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس قوم میں کوئی مسخ ہوگا تو اہل حدیث ہو گا! میں نے کہا: کیوں؟! آپ نے فرمایا: چونکہ وہ حدیث سے مرعوب ہیں اور انہوں نے کتاب خدا کو اور اپنی عقل کو ترک کر دیا ہے، اور اگر عمر بن الخطاب انہیں درک کرتے تو وہ انہیں سمندر کے جزیروں میں جلاوطن کر دیتے»!

↑[۱] . النور/ ۱۳
↑[۲] . النور/ ۱۳
ھم آہنگی
ان مطالب کو آپ اپنے دوستوں کے ساتھ بھی شیئر کریں تاکہ دینی معلومات کو پھیلانے میں مدد ملے۔ نئی چیز سیکھنے کا شکر دوسروں کو وہی چیز سکھانے میں ہے۔
ایمیل
ٹیلیگرام
فیسبک
ٹویٹر
اس متن کا نیچے دی ہوئ زبانوں میں بھی مطالعہ کر سکتے ہیں
اگر دوسری زبان سے واقفیت رکھتے ہیں تو اِس متن کا اُس زبان میں ترجمہ کر سکتے ہیں۔ [ترجمے کا فارم]