منگل ۱۶ اپریل ۲۰۲۴ برابر ۷ شوّال ۱۴۴۵ ہجری قمری ہے
منصور ہاشمی خراسانی
حضرت علّامہ منصور ہاشمی خراسانی حفظہ اللہ تعالی کے دفتر کے معلوماتی مرکز (ویب سایٹ) کا اردو زبان میں آغاز ہو گیا ہے۔
loading
خط
 

خط کا ترجمہ:

حبیب کے بیٹے عبد اللہ نے ہمیں خبر دی، عبد اللہ بیان فرماتے ہیں: حضرت منصور ھاشمی خراسانی نے میرے لئے ایک خط تحریر فرمایا اور اس خط میں آپ نے سب سے پہلے خدا کی حمد و ثنا کی اور پھر پیغمبر اور آل پیغمبر پر درود و سلام کے بعد آپ نے فرمایا:

«و اما بعد...

عبد اللہ اے حبیب کے بیٹے! یہ جان لو کہ کامیابی، پرہیزگاروں کا نتیجہ ہے اور پرہیزگاری عبادت خداوندی کا عنوان ہے، عبادت اسی کی اطاعت کا نام ہے اور اسکی اطاعت واجبات پر عمل کرنا اور محرمات سے پرہیز کرنا ہے کہ جسے اس نے خود اپنی کتاب میں اور سنت پیغمبر میں بیان فرمایا ہے۔ لہذا خدا کے نیک بندے وہی پرہیزگار افراد ہیں جو نیک اعمال بجا لاتے ہیں سچی باتیں کرتے ہیں اور خود کو گناہوں سے بچا کر رکھتے ہیں۔ وہ لوگ کہ جنکے قلوب خوف خدا سے لرز چکے ہیں اور انہوں نے اسی کی امید میں خود کو سمیٹ لیا ہے؛ وہ افراد کہ جنکے ہونٹ کثرت ذکر کی بنا پر خشک ہو چکے ہیں اور انکے شکم مسلسل روزوں کی بنا پر لاغر ہو چکے ہیں؛ وہ افراد کہ جنہوں نے اپنے نفسوں کو دام ھوس سے آزاد کرا لیا اور انکے رخساروں پر فروتنی کی دھول جم چکی ہے؛ وہ افراد کہ جنکے دلوں کو موت کی یاد نے آراستہ کر دیا ہے اور آخرت نے انکی آنکھوں سے دنیا کو چھین لیا ہے؛ شرعی ذمہداریوں نے انکی نیندوں کو ان سے چرا لیا ہے حقوق کی پرواہ نے انکی بھوک کو ختم کر دیا ہے۔ جن امور سے لوگوں کو بچنا چاہئے تھا، لوگ ان امور سے مانوس ہو چکے ہیں اور جن امور سے انہیں مانوس ہونا چاہئے تھا وہ لوگ ان کے انجام دہی سے بچنے لگے ہیں۔ یہ سب جانتے ہیں کہ انہیں بہت ہی جلد ایک دوسری بستی کی طرف سفر کرنا ہے تو انہیں چاہئے کہ وہ اس سفر کے لئے سامان سفر تیار کر لیں۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ یہ آنے والا سفر کافی طولانی ہے انہیں کافی مشکل راستوں کو عبور کرنا ہے انہیں ایسے راستے پر چلنا ہے کہ جس پر چلنے والا کبھی لوٹ کر نہیں آتا ہے وہ راستہ ایک ایسا گڑھا ہے جو اپنے مسافر کو نگل جاتا ہے۔ آہ یہ کیسی آج جو کل سے نزدیک ہے! اسی لئے وہ لوگ اس سفر کی فکر میں گریہ کرتے ہیں اور خود کو اس سفر کے لئے آمادہ کرتے ہیں؛ وہ لوگ اس طرح جیتے ہیں کہ جیسے یہ انکی زندگی کی آخری سانس ہے یا یوں کہ وہ مرنے سے پہلے ہی مر چکے ہیں۔

اے عبد اللہ! وہ لوگ دنیا کو پہچان چکے ہیں اور اسکی قیمت بھی جان چکے ہیں؛ دنیا انکی نگاہ میں ایک بے ارزش سامان کی مانند ہے کہ جس سے انہوں نے اپنے منھ کو موڑ لیا ہے۔

اے عبد اللہ! تم بھی اس دنیا کو پہچانوں؛ کیوں کہ گڑھوں کو پہچاننے والا شخص کبھی خود کو گڑھے میں نہیں گرنے دیتا ہے، زہر سے آشنا انسان کبھی اس زہر کو پیتا نہیں ہے۔

اے عبد اللہ! دنیا میں تمہیں پہچنواؤنگا۔ دنیا اس عورت کی مانند ہے کہ جسکا مھر موت ہے، دنیا اس بے آبرو اور خود فروش عورت کی مانند ہے کہ جسکی اجرت بے شرمی ہے۔ ایسی عورتوں کو اپنی ہمسری میں لانے سے بچو! انکے ساتھ ہم بستر نہ ہو؛ کیونکہ یہ بے وفا اپنے شوہر کو مار کر اسکے میراث کو تاراج کر دیگی۔ یہ اپنے عاشق کو نیند کی آغوش میں بھیج کر اسکا سارا سامان لوٹ لے گی۔ ہوشیار! انکی آرائش تمہارے دلوں کو نہ لبھا پائے، انکے ناز نخرے تمہیں دھوکہ نہ دے پائیں۔

اے عبد اللہ! دنیا میں تمہیں پہچنواؤنگا۔ دنیا اس سوکھے ہوئے کنوے کی مانند ہے کہ جس میں صرف گندگی بھری ہے؛ لہذا اپنے دل کے ڈول کو اس کنوے میں نہ ڈالو اس کنوے کو اپنی پیاس بجھانے کی جگہ نہ بناؤ۔

اے عبد اللہ! دنیا میں تمہیں پہچنواؤنگا۔ دنیا اس پرانی سڑی ہوئی سیڑھی کی مانند ہے کہ جس پر کبھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا ہے؛ دنیا اس سانپ کے بل کی مانند ہے کہ جس میں کسی نے بھی ہاتھ ڈالا وہ ڈسا جائےگا۔ دنیا اس مردار کی مانند ہے کہ جو مردہ خور جانوروں کا لقمہ بنتا ہے اپنے گرد کیڑوں مکوڑوں کو جمع کرتا ہے اور انسان کے دلوں میں خود کے لئے نفرت پیدا کراتا ہے۔

اے عبد اللہ! دنیا بچہ نہ دینے والی عورت کی مانند ہے، دنیا اس درخت کے مانند ہے جو کبھی پھل نہیں دیتا، دنیا اس بادل کی طرح ہے جس سے کبھی بارش نہیں ہوتی، دنیا اس سایہ کی مثل ہے جو کبھی رکتا نہیں ہے۔ ہوشیار! دنیا کو کبھی اپنی تکیہ گاہ نہ بنانا؛ کیونکہ دنیا پر بھروسہ، ہوا پر بھروسہ کرنے جیسا ہے دنیا سے دوستی، بھیڑیے سے دوستی کی مانند ہے۔ کیا بھیڑیا کبھی کسی کا دوست بن سکتا ہے؟!

اے عبد اللہ! دنیا سے محبت مت کرو؛ کیونکہ دنیا نے جس سے سب سے زیادہ محبت کی ہے انہیں بھلا دیا ہے۔ اگر تمہیں یقین نہ ہو تو اپنے گزرے ہوئے لوگوں پر غور کرو؛ وہ لوگ جو کبھی تمہارے آس پاس ہوتے تھے آج انکا کوئی پتہ نہیں ہے۔ انکے قصے کہانیوں کو دہراؤ اور انکے نتائج سے سبق حاصل کرو؛ کیوں کہ وہ لوگ بھی تمہاری ہی طرح کے انسان تھے موت نے جنکی گردنوں کو دھر دبوچا، قبر نے جنکے جسموں کو نگل لیا اور زمانے نے جنکے تمام نشانات کو مٹا دیا۔ کیا تم یہ سوچتے ہو کہ انکے سروں پر جو آفتیں آئیں وہ تمہارے سروں پر نہیں آئیں گی۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ جبکہ ان گذرے ہوئے لوگوں میں بہت سارے لوگ تم سے کہیں زیادہ قدرتمند اور ان میں سے بہت سارے تم سے کہیں زیادہ دولت مند تھے لیکن پھر بھی انہیں انکی قدرت و دولت نے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور آخر کار انہیں موت کی کوٹھری میں سر نگوں ہونا پڑا۔ ہوشیار! زندہ لوگوں کے ساتھ تمہارا اٹھنا بیٹھنا تمہیں مردوں سے بے خبر نہ کر دے یہاں تک کہ تم ان سے مال جمع کرنے میں مقابلہ کرنے لگ جاؤ اور گھر بنانے، ساز و سامان خریدنے، ازدواج کرنے اور لذتوں میں ڈوبے رہ جاؤ۔ کیونکہ آج کے زندہ لوگ کل کے مردہ ہونگے بالکل اسی طرح جس طرح سے آج کے مردہ لوگ کل کے زندہ افراد تھے۔

اے عبد اللہ! سوئے ہوئے بہت سارے اٹھ نہیں پائے، گئے ہوئے واپس نہ آپائے اور بہت سارے بیمار کہ جنہیں شفا نہیں مل پائ ہے۔ اسی طرح آج جو بھی زندہ ہے اسے مرنا ہے اور جو بھی کھاتا پیتا ہے اسے ایک دن خود مٹی کی خوراک بن جانا ہے۔

اے عبد اللہ! موت سے غافل نہ ہونا؛ کیونکہ موت تم سے غافل نہیں ہے۔ خود کو مرنے کے لئے آمادہ رکھو؛ کیوں کہ نہیں پتہ موت تم پر کب آن پڑے۔ بڑی بڑی خواہشوں کو ترک کرو اور اپنے خواہشات نفس کے پیچھے پیچھے مت دوڑو۔ حصول دنیا پر خوشحال اور ترک دنیا پر غمگین نہ ہو۔ اپنی مہار کو شیطان کے ہاتھوں سے لے کر زمین پر موجود خلیفہ خدا کے حوالے کر دو؛ کیونکہ شیطان تمہیں آگ کی طرف لے جائےگا اور زمین پر موجود خدا کا خلیفہ تمہیں بہشت کی طرف ہدایت کریگا۔

اے عبد اللہ! مھدی کے ناصر و مددگار وہ افراد نہیں ہیں جو خدا کی معصیت کرتے ہیں، انکے ناصر وہ لوگ ہیں جو چھوٹے بڑے تمام گناہوں سے پرہیز کرتے ہیں؛ اپنی راتیں نمازوں میں گزار دیتے ہیں اور اپنا دن تعلیم و تعلم میں ۔ ایسے افراد خدا کے کئے ہوئے وعدوں پر ایمان رکھتے ہیں اور روز جزا سے ڈرتے ہیں؛ جب وہ خدا کی بارگاہ میں پیش کئے جائیں گے اس وقت وہ اپنے کردار کا مشاہدہ کریں گے۔

ناصران مھدی انبیائے خدا کے اخلاق کے مطابق بناۓ گۓ ہیں اور اس کے اولیاء کے اخلاق کے مطابق ہیں۔ حق جیسے کہ ان پر آشکار ہوگیا ہو وہ حق کو قبول کر لیتے ہیں اور باطل نے جیسے کہ انہیں رسوا کر دیا ہو اسے ترک کر دیتے ہیں۔ ناصران مھدی نہ متعصب ہوتے ہیں اور نہ ہٹ دھرم، یہ افراد نہ بد زبان ہوتے ہیں اور نہ ہی بکواس باتیں کرنے والے۔ یہ لوگ خدا سے جھوٹ منسوب نہیں کرتے ہیں اور وہ لوگ جو خدا سے جھوٹ منسوب کرتے ہیں ان سے دوری اختیار کرتے ہیں۔ نمازوں کو انکے وقت پر ادا کرتے ہیں اور اپنے مال سے ضرورت مندوں کی مدد فرماتے ہیں۔ اپنے غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں پر جفا کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ اپنے والدین کا احترام کرتے ہیں اور انکی بری اخلاقی عادتوں پر صبر کرتے ہیں۔ اپنی دوستی کے بہانے وہ اپنے دوستوں کی بے احترامی نہیں کرتے ہیں اور اپنی دشمنی کے بہانے اپنے دشمنوں پر ستم نہیں کرتے ہیں۔ جاہلوں کے ساتھ مدارات سے پیش آتے ہیں اور ناسمجھوں کے ساتھ بحث نہیں کرتے ہیں۔ یہ لوگ نہ زیادہ بات کرتے ہیں نہ زیادہ ہنستے ہیں نہ زیادہ سوتے ہیں اور نہ زیادہ کھاتے ہیں۔ اپنی شہوت کی مہار اپنے ہاتھوں میں رکھتے ہیں اور اپنے پاک دامنی کے پلڑے کو کبھی ہلکا ہونے نہیں دیتے ہیں۔ یہ لوگ نہ ڈرپوک ہیں اور نہ ہی بے حیا، یہ نہ خود نمائی کرتے ہیں اور نہ زیادہ گوئی سے کام لیتے ہیں۔ ایسے افراد فاسقوں سے نہ کبھی دوستی کرتے ہیں اور نہ ہی ظالمین کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ فائدہ بخش کاموں کو انجام دیتے ہیں اور اپنے وقت کو برباد نہیں کرتے ہیں۔ یہ لوگ کتاب خدا سے مانوس اور حلال و حرام سے آشنا ہیں۔ علماء کی تعلیمات کے منکر نہیں ہیں اور انکی تعلیمات سے کوئی بیر نہیں رکھتے ہیں بلکہ انکی ضرورتوں کو پوری کرتے ہیں اور انکی مدد کے لئے آگے بڑھتے ہیں ۔ جب انہیں مھدی کی طرف دعوت دی جاتی ہے تو وہ اسکی مدد کے لئے یک جا جمع ہو جاتے ہیں۔

اے عبد اللہ! تمہیں کیا لگتا ہے، جو میری دعوت پر لبیک کہتے ہوئے میری مدد کے لئے دوڑے چلے آتے ہیں کیا وہ یہ امید رکھ کر آتے ہیں کہ وہ میرے ذریعے اپنی دنیا بنا لیں گے ؟ ایسا نہیں ہو سکتا! کیونکہ وہ لوگ جانتے ہیں کہ میرے پاس دنیا ہے ہی نہیں کہ میں اس میں سے انہیں کچھ دے دوں۔ انہیں میرے ساتھ شب بیداری اور دن کی بھاگ دوڑ کے سوا کچھ نہیں ملنے والا ہے، لیکن انہیں بہشت ضرور حاصل ہوگی کہ جس کے نیچے نہریں جاری ہونگی وہ لوگ اس آگ سے بچے رہیں گے کہ جسکا ایندھن انسان ہوگا۔ کیا تم یہ سوچتے ہو کہ جو لوگ مجھ سے بھاگتے ہیں اور میرے دشمن تک مدد پہنچاتے ہیں ایسے لوگ آخرت میں کامیابی کی امید رکھتے ہیں؟ ایسا نہیں ہو سکتا! کیونکہ وہ لوگ جانتے ہیں کہ وہ دنیادار افراد کی چاپلوسی کرتے ہیں قدرتمند اور دولتمند افراد کی خدمت میں لگے رہتے ہیں، آخرت میں انکی قسمت جہنم کی آگ کے سوا کچھ نہ ہوگی۔ لوگوں کو چھوڑ دو کہ وہ اپنا راستہ خود اختیار کریں کیونکہ انہیں اس انتخاب کا کوئی فائدہ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔

اے عبد اللہ! آل محمد کے قرض کو ادا کرنے کے لئے ہم آج اس راستے پر نکلے ہیں۔ خدا کی قسم ہم اس راستے میں استقامت کے ساتھ کھڑے ہیں، اس راستے میں ہمیں نہ ملامت کا خوف ہے نہ ہی ملامت گری کا ڈر ہے۔ اس اقدام کا مقصد ظھور مہدی کے لئے زمینہ سازی کرنا ہے۔ اس اقدام سے ہمارا مقصد مھدی کی حکومت کو ممکن بنانا ہے۔ لہذا آج جو بھی ہمارے ساتھ رہے گا وہ کل بھی ہمارے ساتھ رہے گا اور کل ہم اس کے کنارے کھڑے ہونگے جنکے لئے آج ہم یہ کام کر رہے ہیں۔ لہذا ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرو۔ خدا آپ سب پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے؛کیونکہ آپ ہی لوگ خدا کے نیک بندے ہیں؛ وہ لوگ جو زمین پر کمزور شمار کئے جاتے ہیں خدا انہیں اپنے لطف و کرم سے اس دنیا کو انکی میراث قرار دے دیتا ہے۔ وہ انسان جو تمہیں بہترین راستے کی طرف ہدایت کر رہا ہے جو تمہیں بہترین روش سے آشنا کرا رہا ہے جو تمہیں بہترین مقاصد کی طرف دعوت دے رہا ہے اسکی مدد کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرو بجائے اسکے کہ تم اس سے اپنی اجرت طلب کرو اور اپنے متعلق کوئی دعویٰ کرو۔

خداوند متعال کی بارگاہ میں اپنے لئے اور آپ سب کے لئے مغفرت اور بخشش کا طلبگار ہوں اور اس سے دعا گو ہوں کہ وہ مجھے اور آپ سب کو اپنے اور اپنے خلیفہ کے ناصرین میں شمار فرمائے کیونکہ وہ بڑا مہربان بڑا بخشنے والا اور گناہوں کو معاف فرمانے والا اور ہماری دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے۔

و السلام علیکم و رحمة اللہ»۔

اصلی زبان میں خط کا مطالعہ کرنے کے لۓ یہاں کلیک کریں۔
ھم آہنگی
ان مطالب کو آپ اپنے دوستوں کے ساتھ بھی شیئر کریں تاکہ دینی معلومات کو پھیلانے میں مدد ملے۔ نئی چیز سیکھنے کا شکر دوسروں کو وہی چیز سکھانے میں ہے۔
ایمیل
ٹیلیگرام
فیسبک
ٹویٹر
اس متن کا نیچے دی ہوئ زبانوں میں بھی مطالعہ کر سکتے ہیں
اگر دوسری زبان سے واقفیت رکھتے ہیں تو اِس متن کا اُس زبان میں ترجمہ کر سکتے ہیں۔ [ترجمے کا فارم]