کیا جناب منصور اس بات کے معتقد ہیں کہ مہدی حال حاضر میں موجود ہیں اور زندہ ہیں؟! اگر ایسا ہے تو ان کے اس عقیدے پر دلیل کیا ہے؟!
منصور ہاشمی خراسانی اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ مہدی حال حاضر میں موجود ہیں اور زندہ ہیں اور اس بات پر دلیل ان کے ایک ساتھی کی ایک روایت ہے جس میں وارد ہوا ہے:
«دَخَلْتُ عَلَى الْمَنْصُورِ الْهَاشِمِيِّ الْخُرَاسَانِيِّ وَهُوَ فِي مَسْجِدٍ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: أَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّ اللَّهَ قَدْ جَعَلَ لَكُمُ الْمَهْدِيَّ وَلِيًّا، فَاتَّخِذُوهُ وَلِيًّا، وَلَا تَتَّخِذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ، قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ! فَقَامَ رَجُلٌ أَحْوَلُ مِنْ بَيْنِ النَّاسِ فَقَالَ: وَهَلْ خَلَقَ اللَّهُ الْمَهْدِيَّ؟! قَالَ: نَعَمْ، وَإِنَّهُ لَيَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ! قَالَ الرَّجُلُ: وَهَلْ رَأَيْتَهُ أَنْتَ بِعَيْنَيْكَ؟! فَسَكَتَ الْمَنْصُورُ وَلَمْ يُجِبْهُ حَتَّى سَأَلَهُ الرَّجُلُ ثَلَاثًا، فَقَالَ: مَا كُنْتُ لِأَدْعُوَكُمْ إِلَى مَنْ لَمْ أَرَهُ! قَالَ الرَّجُلُ: فَلِمَ لَا يَخْرُجُ إِلَيْنَا لِنَتَّبِعَهُ؟! قَالَ: يَخَافُ! قَالَ الرَّجُلُ: مِمَّ؟! قَالَ: مِنَ الْقَتْلِ -وَأَشَارَ إِلَى حَلْقِهِ»؛ «میں منصور ہاشمی خراسانی کے پاس گیا جب وہ مسجد میں تھے، تو میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا: اے لوگوں! بہرحال خدا نے مہدی کو تمہارا ولی مقرر کیا ہے، لہٰذا انہیں اپنا ولی بناؤ اور ان کے علاوہ کسی کو اپنا ولی نہ بناؤ، تمہیں تھوڑی سی نصیحت کی جائے گی! اس وقت ایک شخص جس کی آنکھ ٹیڑھی تھی مجمع کے درمیان سے کھڑا ہوا اور بولا: کیا خدا نے مہدی کو پیدا کیا ہے؟! آنجناب نے فرمایا: ہاں، اور یقینا وہ کھانا بھی کھاتے ہیں اور بازاروں میں چلتے پھرتے بھی ہیں! اس آدمی نے کہا: کیا تم نے انہیں خود اپنی ان دونوں آنکھوں سے دیکھا ہے؟! پس منصور خاموش ہوگئے اور اسے کوئی جواب نہ دیا، یہاں تک کہ اس شخص نے اپنا سوال تین بار دہرایا، اس وقت آنجناب نے فرمایا: میں تمہیں کسی ایسے شخص کی طرف دعوت نہیں دوں گا جسے میں نے خود نہ دیکھا ہو! اس آدمی نے کہا: ایسی صورت میں وہ ہمارے پاس کیوں نہیں آتے کہ ہم ان کی پیروی کریں؟! انہوں نے کہا: انہیں خوف ہے! اس آدمی نے کہا: کس چیز کا؟! انہوں نے کہا: قتل ہونے کا اور اپنے گلے کی طرف اشارہ کیا۔»
یہ واضح بیان اس بات پر ہے کہ آپ حال حاضر میں موجود، وجود مہدی پر دلیل رکھتے ہیں، اگر چہ کہ آنحضرت لوگوں کی نظروں سے غائب ہیں؛ اس معنی میں کہ اپنی جان کو لیکر ان کے خوف کی وجہ سے کہ وہ ان میں پہچانے نہ جائیں اور یہ ایسا امر ہے جو عقلی اور شرعی اعتبار سے ممکن ہے؛ بلکہ اس کے متحّقق ہونے اور انکے ظہور ہونے کے وقت کی متواتر احادیث میں جو نشانیاں ملتی ہیں، مثلاً دنیا پر ظلم و ناانصافی کی حکمرانی اور آفات و مصیبتوں کی کثرت اور اس جیسی دوسری مثالیں، اس کی توثیق کے پیش نظر اسے بہت زیادہ محتمل سمجھا جاتا ہے اور نتیجتاً اس کے انکار کی کوئی وجہ نہیں ملتی ہے اور جس نے اس کا انکار کیا ہے اس نے لاعلمی کے بنا پر انکار کیا ہے؛ مزید برآں، تمثیل میں، وہ کسی ایسے شخص کی طرح ہے جو خدا کی رحمت سے مایوس ہو چکا ہے؛ ﴿وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ﴾[۱]؛ «اور گمراہوں کے سوا کون اپنے رب کی رحمت سے مایوس ہو سکتا ہے؟!» بہر حال یہ بات واضح ہے کہ جاہل، عالم پر کوئی حجیت نہیں رکھتا ہے اور منصور نے مہدی کے وجود کا علم حاصل کر لیا ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے اپنے آپ کو انہیں صرف دیکھنے کی خبر دینے تک محدود نہیں رکھا، حالانکہ ان کی خبر کو انکی عدالت اور انکی جلالت کی بنیاد پر معتبر سمجھا جاتا ہے، بلکہ انہوں نے مہدی کے وجود پر عقلی اور شرعی دلیلیں قائم کی ہیں۔ لیکن وجود مہدی پر انکی عقلی دلیل، کل اسلام کی تعلیم اور خالص و کامل طور پر اسکے قیام کے لئے زمین پر خدا کے خلیفہ کی ضرورت ہے؛ چونکہ عقل ایسی تعلیم اور قیام کی ضرورت کو سمجھتی ہے اور انہیں زمین پر خدا کے خلیفہ کی موجودگی کے علاوہ ممکن نہیں سمجھتی ہے؛ جیسا کہ کتاب «اسلام کی طرف واپسی» میں بیان کیا گیا ہے:
«ممکن ہے یہ خیال کیا جا ئے کہ اسلام پر مجموعی طور پر عمل کرنا ممکن نہیں لہذا اس کے بعض حصّے پر عمل کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے اور جب اس کے بعض حصّے پر عمل کرنا ممکن نہ ہو تو بے بسی پیدا ہو جاتی ہے، , جو ممکن نہیں ہے؛ لیکن یہ واضح ہے کہ یہ خیال وہم ہے؛ کیونکہ یقیناً خدا نے اپنی حکمت اور رحمت کے مطابق اسلام میں کوئی ایسی چیز نہیں رکھی جس پر عمل نہ کیا جا سکے؛ بلکہ اسلام میں کوئی بھی چیز اس پر عمل کرنے کے لیے ہی داخل کی گئی ہے، اور یہ واضح ہے کہ اسلام میں ایسی چیز داخل کرنا جس پر عمل کرنا ممکن نہ ہو، فضول ہے، لہذا یہ خدا کی طرف سے جاری نہیں ہوسکتا۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ نے کل اسلام کا حکم دیا اور نہ کہ صرف اس کے ایک حصّے کا، اور یہ واضح ہے کہ امر محال کے لئے اس کا حکم ناممکن ہے؛ کیونکہ یہ اس کی حکمت کے خلاف ہے۔ لہذا پورے اسلام میں کہیں بھی اس بات کا کوئی حکم نہیں ہے کہ جس پر عقیدہ یا عمل ذاتی طور پر ناممکن ہو۔ تاہم، اسلام پر مکمّل عمل کرنے کے ناممکن ہونے کی واحد وجہ اسکا مکمل طور پر عالم نہ ہوپانا ہے کہ جو ممکن بھی نہیں ہے؛ لہذا کل اسلام پر عمل کرنے کے لیے پورے اسلام کا علم ہونا ضروری ہے، اور یقیناً یہ صرف اس شخص کے لیے ممکن ہے جس نے اس کی قانون سازی کی ہو لہذا مسلمانوں کے لیے اس کا مکمل طور پر علم حاصل کرنا اور مکمل طور پر اس پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن حق یہ ہے کہ اس پہلو کو بھی رد کر دیا گیا ہے؛ کیونکہ یقیناً اللہ نے مسلمانوں پر مکمل طور پر اسلام پر عمل کرنا فرض کیا ہے لہذا عمل بہ کل اسلام کا علم بہ کل اسلام پر موقوف ہونا خدا پر واجب کرتا ہے کہ وہ بندوں کو کل اسلام کی تعلیم کا سامان فراہم کرے، نہ یہ کہ وجوب عمل کو ہی برخواست کر دیا جائے؛ اس لحاظ سے پورے اسلام پر عمل کرنا اور اس کا تمام علوم پر موقوف ہونا اور اس علم کا خدا پر انحصار ذاتی کو مدنظر رکھتے ہوئے خدا کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کے لیے اس کا مکمل طور جاننا ممکن بنائے تاکہ کل اسلام پر عمل نہ کرنے اور اس کے نتیجے میں انکے مصائب و مشکلات میں مبتلا ہو جانے پر انکے پاس کوئی عذر نہ رہ جائے۔ یہ واضح ہے کہ یہ تعلیم ناگزیر اور یقینی ہے، لہذا یہ دو طریقوں سے ممکن ہے: یا تو خدا تمام مسلمانوں کو پورے اسلام سے براہ راست آگاہ کر دے، یا پھر ان میں سے بعض کو اس امر کے لیے چن لے، تا کہ دوسرے غیر مستقیم طور پر ان سے اسلام کا پورا علم حاصل کر سکیں۔ چونکہ یہ بات یقینی ہے کہ اللہ نے تمام مسلمانوں کو براہ راست پورے اسلام سے روشناس نہیں کیا، لہذا یہ روشن ہے کہ اس نے ان میں سے بعض کو پورے اسلام سے روشناس کر دیا ہے، اور اسی کے مطابق دوسروں پر واجب ہے کہ وہ انھیں جانیں اور ان سے سیکھیں۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ پورے اسلام کا علم خدا سے مخصوص ہے، لہذا وہ عالم بہ کل اسلام لامحالہ یا تو وہ پیغمبر ہیں جنہوں نے پورے اسلام کا علم براہ راست خدا سے حاصل کیا ہے، یا ان کا تعلق اس پیغمبر سے ہے جس نے بالواسطہ طور پر پورے اسلام کا علم حاصل کیا ہے۔ لہذا تعلیم بہ کل اسلام کے سلسلے میں خدا سے انکی نیابت کے اعتبار سے ایسے لوگ مسلمانوں کے درمیان خدا کے خلیفہ شمار کئے جاتے ہیں،۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے زمین پر ایک خلیفہ معین کیا ہے۔»
اور وجود مہدی پر انکی شرعی دلیل، خدا کا کلام ہے جس نے فرمایا: ﴿إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً﴾[۲]؛ «یقینا میں روی زمین پر خلیفہ بنانے والا ہوں»؛ کیونکہ یہ کلام اس کے وعدے کی طرح ہے جس کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی اور یہ کلام اس کی سنت کی مانندہے جسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا؛ جیسا کہ ہمارے ایک ساتھی نے ہمیں اطلاع دی، اس نے کہا:
«سَأَلْتُ الْمَنْصُورَ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: ﴿إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً﴾، فَقَالَ: إِنَّ الْأَرْضَ لَا تَخْلُو مِنْ خَلِيفَةٍ اللَّهُ جَاعِلُهُ، وَلَوْ خَلَتْ لَسَاخَتْ بِأَهْلِهَا، وَمَنْ مَاتَ وَلَمْ يَعْرِفْ هَذَا الْخَلِيفَةَ فَقَدْ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً، ثُمَّ سَكَتَ سَاعَةً حَتَّى أَرَدْتُ أَنْ أَقُومَ مِنْ عِنْدِهِ، فَقَالَ: لَا يَزَالُ اللَّهُ يَجْعَلُ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً مُنْذُ قَالَهُ، وَلَوْ قَالَ: <إِنِّي أَجْعَلُ> لَكَانَ مِنْهُ جَعْلٌ وَاحِدٌ، وَلَكِنَّهُ قَالَ: ﴿إِنِّي جَاعِلٌ﴾، وَالْجَاعِلُ مَنْ يَسْتَمِرُّ مِنْهُ الْجَعْلُ، وَكُلُّ خَلِيفَةٍ لِلَّهِ فِي الْأَرْضِ مَهْدِيٌّ إِلَى مَا خَلَقَ اللَّهُ فِيهَا لِيَضَعَهُ حَيْثُ يَشَاءُ اللَّهُ، وَمَنْ لَمْ يَهْتَدِ إِلَى مَهْدِيِّ زَمَانِهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا»؛ «میں نے منصور سے خدا کے اس قول کے بارے میں پوچھا کہ وہ فرماتا ہے: <میں زمین پر خلیفہ بنانے والا ہوں> تو انہوں نے فرمایا: یقینا زمین اس خلیفہ سے کبھی خالی نہیں ہوگی جسے خدا نے منتخب کیاہو اور اگر زمین خالی رہی تو یہ اپنے اوپر رہنے والوں کو نگل لیگی اور جو اس خلیفہ کو جانے بغیر مر جائے گویا وہ جاہلیت کی موت مر اہے۔ پھر وہ کچھ دیر خاموش رہے یہاں تک کہ میں نے ان کے پاس سے اٹھنا چاہا، پھر انہوں نے بات جاری رکھی: جب سے خدا نے یہ کہا ہے، تب سے اس نے ہمیشہ زمین پر ایک خلیفہ بھیجا ہے، اور اگر وہ یہ کہتا: <میں مقرر کروں گا> تو ممکن تھا ایک مرتبہ بھیج دیتا، لیکن اس نے کہا: <میں بنانے والا ہوں> اور بنانے والا وہ ہوتا ہے جس کے بنانے میں استمرار رہے اور خدا نے اس دنیا میں جو کچھ پیدا کیا ہے زمین پر خدا کے ہر خلیفہ کو اسکی ہدایت دی گئی ہے تاکہ وہ اسے جہاں خدا نے چاہا ہے قرار دے۔ اور جو بھی اپنے زمانے کے مہدی تک پہنچنے کا راستہ نہ پا سکے تو یقینا وہ گمراہ ہو کر بہت دور چلا گیا ہے۔»
اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین کبھی بھی اس خلیفہ سے کہ جسے اس نے منتخب کیا ہے خالی نہیں ہوگی اور یہ واضح ہے کہ زمانے کا آخری، خدا کا واحد خلیفہ مہدی ہے؛ کیونکہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم سے کوئی مصدقہ خبر نہیں ہے کہ ان کے علاوہ کسی اور کی خلافت خدا کے لیے آخری زمانہ میں ہو، اس لیے سلف صالحین کے بعد ان کے علاوہ کسی اور کی خلافت کا یقین ہونا ممکن نہیں ہے، جب کہ اسلام میں صرف یقین ہونا ہی کافی نہیں ہے اور اس کا مطلب ہے کہ اس وقت مہدی کے علاوہ کسی اور کی خلافت کا امکان نہیں ہے؛ جیسا کہ ہمارے ایک ساتھی نے ہمیں اطلاع دی، اس نے کہا:
«سَأَلَ الْمَنْصُورَ رَجُلٌ وَأَنَا حَاضِرٌ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: ﴿إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً﴾، فَقَالَ: لَا يَزَالُ اللَّهُ جَاعِلًا فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً مُنْذُ وَعَدَهُ، إِمَّا ظَاهِرًا مَشْهُورًا وَإِمَّا خَائِفًا مَغْمُورًا، وَإِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ، قَالَ الرَّجُلُ: إِنَّهُمْ قَدْ جَعَلُوا فِي الْعِرَاقِ خَلِيفَةً وَلَا يَرَوْنَ إِلَّا أَنَّهُ الْخَلِيفَةُ! قَالَ: كَذَبُوا أَعْدَاءُ اللَّهِ، مَا قَالَ اللَّهُ لَهُمْ: <إِنَّكُمْ جَاعِلُونَ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً>، وَلَكِنْ قَالَ: ﴿إِنِّي جَاعِلٌ﴾، فَلَوْ جَعَلُوا فِيهَا خَلِيفَةً دُونَ الْخَلِيفَةِ الَّذِي جَعَلَهُ اللَّهُ فِيهَا لَكَانُوا بِذَلِكَ مُشْرِكِينَ، قَالَ الرَّجُلُ: وَمَنْ هَذَا الْخَلِيفَةُ الَّذِي جَعَلَهُ اللَّهُ فِيهَا؟ قَالَ: رَجُلٌ مِنْ وُلْدِ فَاطِمَةَ يُقَالُ لَهُ الْمَهْدِيُّ»؛ «جب میں وہاں موجود تھا تو ایک شخص نے منصور سے خدا کے کلام کے بارے میں پوچھا کہ وہ کہتا ہے: <میں زمین پر خلیفہ بنا نے والا ہوں>، تو انہوں نے فرمایا: جب سے خدا نے یہ وعدہ کیا ہے تب سے اس نے ہمیشہ سے زمین پر ایک خلیفہ رکھا ہے، خواہ وہ خلیفہ ظاہر ہو یا مشہور ہو اور خواہ وہ خوف زدہ ہو یا نامعلوم ہو، خدا اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے۔ اس شخص نے کہا: انہوں نے عراق میں ایک خلیفہ مقرر کیا ہے اور ان کا کوئی عقیدہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ خلیفہ ہے! انہوں نے فرمایا: خدا کے دشمن جھوٹ بول رہے ہیں! اللہ نے انہیں یہ نہیں کہا کہ زمین پر خلیفہ بنانے والے تم ہو، بلکہ فرمایا: <میں خلیفہ بنانے والا ہوں> پس اگر وہ اس زمین میں خلیفہ مقرر کریں، اس خلیفہ کے علاوہ جسے خدا نے مقرر کیا ہےتو وہ ایسا کرنے سے مشرک ہو جائیں گے۔ اس شخص نے کہا: وہ خلیفہ کون ہے جسے خدا نے مقرر فرمایا ہے؟ آپ نے فرمایا: فاطمہ کی نسل کا ایک شخص جسے مہدی کہتے ہیں۔»
اس بنا پر مہدی کے وجود پر اور انکے زندہ ہونے پر ایمان لایا جا سکتا ہے اور یہ عقیدہ اسلام یا عقل کے خلاف نہیں ہے، حالانکہ اس کے لیے ان کی لمبی عمر پر یقین ضروری ہے؛ کیونکہ طویل زندگی عقلی یا شرعی طور پر ناممکن نہیں ہے، بلکہ زمین پر خدا کے خلفاء کے لیے اسے عجیب بھی نہیں سمجھا جاتا؛ نوح علیہ السلام کے متعلق اللہ کے ارشاد کے مطابق کہ جو اس نے فرمایا ہے: ﴿فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا﴾[۳]؛ «پس وہ انکے درمیان ایک ہزار پچاس سال تک رہے» اور یہ بات واضح ہے کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے؛ جیسا کہ فرمایا: ﴿إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾[۴]۔ جیسا کہ اہل سنت و جماعت کی ایک بڑی تعداد اس سلسلے میں جناب منصور سے متفق ہے، جیسا کہ محمّد بن طلحہ شافعی (م:۶۵۲ھ) مطالب السؤول میں[۵]، سبط بن جوزی حنبلی (م:۶۵۴ھ) تذکرۃ الخواص میں[۶]، محمّد بن یوسف شافعی (م:۶۵۸ھ) البیان میں[۷]، ابن صبّاغ مالکی (م:۸۵۵ھ) الفصول المھمّۃ میں[۸]، عبد الوہاب شعرانی (م:۹۷۳ھ) الیواقیت والجواہر میں[۹]، شبراوی شافعی (م:۱۱۷۱ھ) الإتحاف میں[۱۰]، قندوزی حنفی (م:۱۲۹۴ھ) ینابیع المودّۃ میں[۱۱] اور شبلنجی شافعی (م:۱۳۰۸ھ) نور الأبصار میں[۱۲]۔ نیز ابن عربی (م:۶۳۸ھ) «الفتوحات مکیۃ» میں مہدی کا ذکر کرنے کے بعد کہا: «قد جاءكم زمانه وأظلّكم أوانه، وظهر في القرن الرابع اللّاحق بالقرون الثلاثة الماضية، قرن رسول اللّه صلّى اللّه عليه وسلّم، وهو قرن الصّحابة، ثمّ الذي يليه، ثمّ الذي يلي الثاني»[۱۳]؛ «تمہارے لئے اس کا وقت آگیا ہے اور اس کے وقت نے تم پر سایہ ڈال دیا ہے۔ وہ پہلی تین صدیوں کے بعد چوتھی صدی میں ظاہر ہوا، رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی صدی، اور صحابہ کی صدی، پھر اس کے بعد آنے والی صدی، پھر آنے والی دوسری صدی میں» اور فرمایا: «وهو في زماننا اليوم موجود، عرفت به سنة خمس وتسعين وخمسمائة، ورأيت العلامة التي له قد أخفاها الحقّ فيه عن عيون عباده، وكشفها لي بمدينة فاس حتّى رأيت خاتم الولاية منه، وهو خاتم النبوّة المطلقة، لا يعلمها كثير من الناس، وقد ابتلاه اللّه بأهل الإنكار عليه فيما يتحقّق به من الحقّ في سرّه من العلم به»[۱۴]؛ «وہ آج ہمارے زمانے میں موجود ہے۔ میں نے انہیں پانچ سو پنچانویں سال میں درک کیا اور وہ نشان دیکھا جو خدا نے اپنے بندوں کی نظروں سے اس میں چھپا رکھا ہے اور انہوں نے وہ نشان مجھے شہر فاس میں ظاہر کیا؛ میں نے ان کے پاس ولایت کی مہر دیکھی جو کہ نبوت مطلقہ کی مہر ہے اور بہت سے لوگ اس کے بارے میں نہیں جانتے ہیں۔ تاہم، خدا نے انہیں ایسے لوگوں سے دوچار کیا ہے جو ان کے متعلق اسرار الہی سے ناشی استوار باتوں کو جھٹلاتے ہیں» اور یہ جناب منصور کے الفاظ کی طرح ہیں جو وہ کہتے ہیں کہ مہدی موجود ہے اور انہوں نے انہیں دیکھا ہے۔
تاہم واضح رہے کہ جناب منصور نےزمینہ سازی برائے ظہور مہدی کی طرف اپنی دعوت کو حال حاضر میں انکے وجود اور انکی حیات پر مبتنی نہیں کیا ہے، بلکہ انہوں نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے کہ آنحضرت کے ظہور کی زمینہ سازی حال حاضر میں انکے وجود اور انکے حیات پر عقیدہ نہ ہونے پر بھی ضروری ہے؛ اس بنیاد کے مطابق ان کا وجود اور انکی زندگی اگرچہ خدا کی تخلیق کے لحاظ سے اس کی سرگرمی پر منحصر ہے، لیکن اس کا انحصار لوگوں کی قابلیت پر ہے کہ وہ ان کی قبولیت اور تیاری کے لحاظ سے ہے، اور خدا انہیں اس وقت خلق کرے گا جب وہ انکے درمیان ظہور کرنے پر قادر ہوں۔ لہٰذا اگر وہ ابھی موجود نہ ہوں اور ابھی زندہ نہ ہوں تو ان کے وجود اور زندگی کے لیے جس طرح اس کے ظہور کے لیے زمینہ سازی ضروری ہے اسی طرح ان کے لیے بھی زمینہ سازی ضروری ہے اور اس کی بنیاد خدا کے اس قول پر ہے کہ جس نے فرمایا: ﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ ۗ﴾[۱۵]؛ «بلاشبہ خدا کسی قوم کے اندر جو کچھ ہے اسے نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنے اندر کی چیز کو نہ بدلے»۔
نتیجتاً، خواہ مہدی حال حاضر میں موجود ہوں، زندہ ہوں یا نہ ہوں، تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ان کے ظہور کی زمینہ سازی کرے، اور اس سے مراد یہ ہے کہ ان کی سلامتی کو یقینی بنانے اور اس کی حاکمیت کے حصول کے لیے ضروری شرائط کا مطالعہ کریں، جو جناب منصور نے اپنی کتاب «اسلام کی طرف واپسی» میں تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔