بدھ ۱۷ دسمبر ۲۰۲۵ برابر ۲۶ جمادی الثّانی ۱۴۴۷ ہجری قمری ہے

منصور ہاشمی خراسانی

حضرت علّامہ منصور ہاشمی خراسانی حفظہ اللہ تعالی کے دفتر کے معلوماتی مرکز (ویب سایٹ) کا اردو زبان میں آغاز ہو گیا ہے۔
loading
معیار شناخت کا ایک ہونا

مسلمانوں کا باہمی اختلاف، اسلام سے متعلق اس کی اختلافی سمجھ کے باعث ہے۔ مسلمانوں کے مختلف طبقے یا مسلک اسلام سے متعلق الگ الگ پہچان رکھتے ہیں اور دوسروں کی سمجھ کو قبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کے اختلاف سے آزادی، بغیر کسی مشترک سمجھ یا شناخت واحد کے ممکن اور کسی شناخت واحد تک پہونچنے کے لئے واحد معیار شناخت کی ضرورت ہے۔ مختلف معیار، مختلف النوع شناخت یا سمجھ کی وجہ بنتے ہیں۔ ایک چیز کی متعدد شناخت، اختلاف کی وجہ بنتی ہے اور مسلمانوں کے لئے باہمی اختلاف اچھی بات نہیں۔ خدا خود فرماتا ہے: ﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا؛ «اللہ کی رسی مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو» اور یہ آیہ کریمہ خوداس بات کی دلیل ہے کہ خدا ئے تعالیٰ کی رسی ایک واحد رسی ہے، کیونکہ اگر ایک سے زیادہ ہوتی تو اس رسی کا پکڑ نا اتحاد نہیں بلکہ اختلاف وجود میں لاتا۔ [اسلام کی طرف واپسی، ص۶]

انسان محوری

آج بھی جہان کفر بے دین فلسفی «ماکیاولی» (م:۱۵۲۷ء) کے تحت تاثیر ہے جو سوفسطائیوں کے میراث خور ہیں انھیں سے اس فکر کوحاصل کیا ہے۔ جنھوں نے بنیادی مفاہیم کی جدید تعریفیں اختراع کر کے اخلاقی معیاروں کو اس کی فطری اور تاریخی تعریفوں سے ہٹا کر مادی ہوس کا تابع بنا لیا ہے۔ مثال کے طور پر، ان کی لغتوں میں انصاف اور آزادی کا نیا مفہوم درحقیقت سب سے زیادہ مادیت پر منحصر ہے۔ ان کی نظر میں، ٹھیک سوفسطائیوں کی طرح حق کو اپنے نظریات کے تابع سمجھا جاتا ہے۔ ہر وہ بات جو ان کے نظریات کے موافق قرار پاتی ہے اچھی اور ہر وہ بات جو ان کے منافع کے خلاف ہو بری ہے۔ واضح ہے کو یہ بشری مرکزی نظریہ، درحقیقت خدا کی مرکزیت کے خلاف ایک تحریک ہے اور ایسے نظریات کے بانی خدا کو نہیں مانتے تھے۔ کیونکہ اسلامی نظریے کے مطابق خدا کی ذات حق کا سر چشمہ ہے اور انسان حق کا تابع ہے۔ جبکہ فلسفہ ألحاد میں انسان حق کا سر آغاز ہے اور خدا کا اس میں کو ئی دخل نہیں۔ دوسرے الفاظ میں، حق کی وحدانیت پر یقین، تو حیدی عقیدہ ہے۔ جبکہ حق کی تکبیر، ایک شرک آمیز عقید ہ ہے جس کا سر چشمہ وحدانیت خدا سے انکار اور حق کو غیر واحد ماننا ہے۔ [اسلام کی طرف واپسی، ص۸]

حق کی کثرت کے معتقدین

آج کل نئے نئے فرقے بن رہے ہیں جن کو «تکثر گرایان» کہا جاتا ہے۔ یہ فرقہ علی الاعلان تقسیم حق اور اس کی مختلف شناخت کو تسلیم کرتا ہے اور ایک متن کی مختلف تفسیریں کرتا ہے اور انہیں کو صحیح مانتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ تحریک اسلامی تحریک نہیں ہے بلکہ الحادی نقطۂ نظر سے وجود میں آیا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ جہان اسلام جہان کفر دونوں آپس میں مل گئے ہیں۔ پہلے ان دونوں میں جو فرق تھا اختلاط کی وجہ سے وہ فرق بھی ختم ہو گیا اور مسلمانوں میں جو افراد اسلامی معرفت کم رکھتے تھے۔ وہ چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی جہان کفر کی مادی دنیا میں محو ہو گئے۔ لہٰذا ایسی صورت میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ غلط نظریہ صرف جہان کفر کی وجہ سے پیدا ہوا ہے بلکہ مسلمان بھی اس میں شریک ہیں کیونکہ اس کی جڑیں کہیں نہ کہیں اسلام کی شروعات میں مسلمانوں سے جا ملتی ہیں۔ جیسا قرآن مجید نے ارشاد فرمایا ہے: ﴿يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ؛ «اس طرح کی باتیں جو لوگ کرتے ہیں وہ زیادہ تر کافر ہیں» خدا ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرماتا ہے: ﴿كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ۘ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ؛ «ایسا ہی کہا ہے ان لوگوں نے جوان سے پہلے تھے ان کے بھی دل ان کے دلوں کی طرح ہے»۔ [اسلام کی طرف واپسی، ص۹]

معیار شناخت واضح ہونا

معیار شناخت سے مراد ایسی چیز ہے جو خود بی خود پہچانی گئی ہو اور وہ دوسری چیزوں کی شناخت کا ذریعہ بنے۔ اس معنی میں اس کی شناخت کے لئے کسی دوسری چیز کی ضرورت نہ ہو بلکہ اس سے دوسری چیزیں پہچانی جائیں۔ جیسے نور خود بہ خود دکھائی دیتا ہے اور دوسری چیزوں کو دیکھنے کا سبب بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ معیار شناخت کسی چیز کا محتاج نہیں ہوتا کیونکہ اگر اپنی پہچان کے لئے معیار شناخت کسی دوسری چیز کا محتاج ہوتا تو اس کی شناخت بھی اپنے معیار شناخت کے لئے دوسری شناخت کی محتاج ہوتی۔ اگر خود معیار شناخت بھی اپنی پہچان کے لئے کسی دوسرے معیار شناخت کا محتاج ہوگا تو تسلسل لازم آئے گا اور یہ ممکن نہیں ہے۔ انسان کی شناختیں بطور لازم ایک دوسری واضح شناخت کی طرف ختم ہوتی ہیں جو تمام شناختوں کا سر چشمہ ہوتی ہیں اور وہ خود کسی سے نکلی ہوئی نہیں ہوتی۔ اور جو خود معیار شناخت کا محتاج ہو وہ معیار شناخت نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا وہ لوگ جو ایسی چیزوں کو معیار شناخت قرار دیتے ہیں انھیں چاہئے کہ اپنی شناخت سے مطمئن نہ ہوں کیونکہ ان کی شناخت کمزور اور بے بنیاد ہے وہ ایسے ہے جیسے کہ ریت کے اوپر عمارت ہو جو کبھی بھی کسی وقت بھی گر سکتی ہے۔ [اسلام کی طرف واپسی، ص۹]

عقل؛ معیار شناخت ہے

صرف ایک چیز ایسی ہے جو انسان کے اندر پائی جاتی ہے، وہ دوسرے حیوانوں میں نہیں پائی جاتی۔ وہ «عقل» ہے، جو کلی مفاہیم کو سمجھنے، اور ان کو جزئی مصادیق پر تطبیق کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اسی کوشش کو «فکر» کہتے ہیں یعنی معلومات کے ذریعے مجہولات تک پہنچنا۔ شاید یہ طاقت حیوانوں میں بھی پائی جاتی ہے لیکن انسان کے اندر زیادہ پائی جاتی ہے۔ اسی دلیل کی بنیاد پر اسے تمام حیوانات پر فضلیت حاصل ہے۔ اگر یہی صلاحیت انسان سے زیادہ کسی دوسرے حیوان میں پائی جاتی تو وہ انسانوں پر مسلط ہوتا اور وہی افضل بھی ہوتا اور انسان کو اپنی خدمت پر مامور کرتا۔ جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ انسانوں کا تسلط حیوانات پر قابل مشاہدہ ہے۔ یہ برتری صرف عقل کی وجہ سے ہے کسی اور امتیاز کی وجہ سے نہیں ہے۔ اسی لئے جو انسان عقل نہیں رکھتا اسے دیوانہ سمجھا جاتا ہے۔ تو پھر وہ دوسرے حیوانات پربھی برتری نہیں رکھ سکتا۔ بلکہ ان سے پست تر ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ خود قرآن نے فرمایا ہے: ﴿أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ؛ «وہ چوپایوں کے مانند ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں اور وہ بے خبر ہیں»۔ اس حقیقت کو جاننے کے بعد کہ عقل انسان کی معیار شناخت ہے اور کوئی دوسری چیز سمجھنے کی طاقت اس کے پاس نہیں ہے۔ [اسلام کی طرف واپسی، ص۱۰]

اپنے نام و نشان سے نہیں بلکہ اپنے خیالات اور تعلیمات کے ذریعہ پہچانے جانے کے بارے میں آپ کے خطوط کے اقتباسات۔

میں جانتا ہوں کہ جو لوگ مجھ سے پہلے تھے انھوں نے بہت کچھ کہا ہے اور آپ کو ناراض کیا ہےکیونکہ انکی باتوں میں بہت ساری باتیں جھوٹی تھیں اور انھوں نے آپ سے وہ باتیں کی ہیں جنکے بارے میں وہ خود نہیں جانتے اور وہ ان لوگوں کے گروہ میں سے ہیں جو آپ کو اپنے لۓ استعمال کرنا چاہتے ہیں اور جو بولتے ہیں آپ کو فریب دینے کے لۓ بولتے ہیں۔ وہ آپ کو حق کی طرف دعوت دیتے ہیں جبکہ خود حق سے بیگانے ہیں اور آپ کی بہتری چاہتے ہیں جبکہ خود اس سے بے بہرہ ہیں! انھوں نے مذھب کو اقتدار کا سہارا اور آخرت کو دنیا حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے؛ وگرنہ نہ دین کو ہی یہ پہچانتے ہیں اور نہ ہی شاید آخرت چاہتے ہیں۔ اب میں آپ سے بات کرتا ہوں جبکہ نہ مجھے کسی بھی قدرت کو حاصل کرنے کی امید اور نہ دنیا حاصل کرنے کا لالچ ہے۔ میں آپ میں سے ایک ہوں جو آپ کی طرح زمین پر کمزوروں میں شمار کیا جاتا ہوں اور میں آپ پر سبقت لینے یا زمین پر تباہی کرنے کے لۓ نہیں آیا ہوں ۔ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سوا کچھ نہیں چاہتا، تاکہ خدا جسے سنوانا چاہتا ہے سنوا دے اور جسکو نہ سنوانا چاہے اسے نہ سنواۓ؛ اور آپ کیا جانتے ہیں؟! شاید اس سے کچھ بدل جاۓ اور کچھ چیزوں سے پردہ اٹھ جاۓ کیونکہ خدا قادر مطلق اور ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ [خط ۱]

آنجناب کی جانب سے ایک خط، انکے ایک ساتھی کے نام کہ جس میں آپ انہیں نصیحت فرماتے ہیں اور انہیں دنیا پرستی سے روکتے ہیں۔

یہ جان لو کہ کامیابی، پرہیزگاروں کا نتیجہ ہے اور پرہیزگاری عبادت خداوندی کا عنوان ہے، عبادت اسی کی اطاعت کا نام ہے اور اسکی اطاعت واجبات پر عمل کرنا اور محرمات سے پرہیز کرنا ہے کہ جسے اس نے خود اپنی کتاب میں اور سنت پیغمبر میں بیان فرمایا ہے۔ لہذا خدا کے نیک بندے وہی پرہیزگار افراد ہیں جو نیک اعمال بجا لاتے ہیں سچی باتیں کرتے ہیں اور خود کو گناہوں سے بچا کر رکھتے ہیں۔ وہ لوگ کہ جنکے قلوب خوف خدا سے لرز چکے ہیں اور انہوں نے اسی کی امید میں خود کو سمیٹ لیا ہے؛ وہ افراد کہ جنکے ہونٹ کثرت ذکر کی بنا پر خشک ہو چکے ہیں اور انکے شکم مسلسل روزوں کی بنا پر لاغر ہو چکے ہیں؛ وہ افراد کہ جنہوں نے اپنے نفسوں کو دام ھوس سے آزاد کرا لیا اور انکے رخساروں پر فروتنی کی دھول جم چکی ہے؛ وہ افراد کہ جنکے دلوں کو موت کی یاد نے آراستہ کر دیا ہے اور آخرت نے انکی آنکھوں سے دنیا کو چھین لیا ہے؛ شرعی ذمہداریوں نے انکی نیندوں کو ان سے چرا لیا ہے حقوق کی پرواہ نے انکی بھوک کو ختم کر دیا ہے۔ جن امور سے لوگوں کو بچنا چاہئے تھا، لوگ ان امور سے مانوس ہو چکے ہیں اور جن امور سے انہیں مانوس ہونا چاہئے تھا وہ لوگ ان کے انجام دہی سے بچنے لگے ہیں۔ یہ سب جانتے ہیں کہ انہیں بہت ہی جلد ایک دوسری بستی کی طرف سفر کرنا ہے تو انہیں چاہئے کہ وہ اس سفر کے لئے سامان سفر تیار کر لیں۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ یہ آنے والا سفر کافی طولانی ہے انہیں کافی مشکل راستوں کو عبور کرنا ہے انہیں ایسے راستے پر چلنا ہے کہ جس پر چلنے والا کبھی لوٹ کر نہیں آتا ہے وہ راستہ ایک ایسا گڑھا ہے جو اپنے مسافر کو نگل جاتا ہے۔ آہ یہ کیسی آج جو کل سے نزدیک ہے! اسی لئے وہ لوگ اس سفر کی فکر میں گریہ کرتے ہیں اور خود کو اس سفر کے لئے آمادہ کرتے ہیں؛ وہ لوگ اس طرح جیتے ہیں کہ جیسے یہ انکی زندگی کی آخری سانس ہے یا یوں کہ وہ مرنے سے پہلے ہی مر چکے ہیں۔ [خط ۲]

آنجناب کی جانب سے ایک خط، انکے ایک ساتھی کے نام کہ جس میں آپ انہیں نصیحت فرماتے ہیں اور انہیں دنیا پرستی سے روکتے ہیں۔

دنیا کو پہچانوں؛ کیوں کہ گڑھوں کو پہچاننے والا شخص کبھی خود کو گڑھے میں نہیں گرنے دیتا ہے، زہر سے آشنا انسان کبھی اس زہر کو پیتا نہیں ہے۔۔۔ دنیا اس عورت کی مانند ہے کہ جسکا مھر موت ہے، دنیا اس بے آبرو اور خود فروش عورت کی مانند ہے کہ جسکی اجرت بے شرمی ہے۔ ایسی عورتوں کو اپنی ہمسری میں لانے سے بچو! انکے ساتھ ہم بستر نہ ہو؛ کیونکہ یہ بے وفا اپنے شوہر کو مار کر اسکے میراث کو تاراج کر دیگی۔ یہ اپنے عاشق کو نیند کی آغوش میں بھیج کر اسکا سارا سامان لوٹ لے گی۔ ہوشیار! انکی آرائش تمہارے دلوں کو نہ لبھا پائے، انکے ناز نخرے تمہیں دھوکہ نہ دے پائیں۔۔۔ دنیا اس سوکھے ہوئے کنوے کی مانند ہے کہ جس میں صرف گندگی بھری ہے؛ لہذا اپنے دل کے ڈول کو اس کنوے میں نہ ڈالو اس کنوے کو اپنی پیاس بجھانے کی جگہ نہ بناؤ۔۔۔ دنیا اس پرانی سڑی ہوئی سیڑھی کی مانند ہے کہ جس پر کبھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا ہے؛ دنیا اس سانپ کے بل کی مانند ہے کہ جس میں کسی نے بھی ہاتھ ڈالا وہ ڈسا جائےگا۔ دنیا اس مردار کی مانند ہے کہ جو مردہ خور جانوروں کا لقمہ بنتا ہے اپنے گرد کیڑوں مکوڑوں کو جمع کرتا ہے اور انسان کے دلوں میں خود کے لئے نفرت پیدا کراتا ہے۔۔۔ دنیا بچہ نہ دینے والی عورت کی مانند ہے، دنیا اس درخت کے مانند ہے جو کبھی پھل نہیں دیتا، دنیا اس بادل کی طرح ہے جس سے کبھی بارش نہیں ہوتی، دنیا اس سایہ کی مثل ہے جو کبھی رکتا نہیں ہے۔ ہوشیار! دنیا کو کبھی اپنی تکیہ گاہ نہ بنانا؛ کیونکہ دنیا پر بھروسہ، ہوا پر بھروسہ کرنے جیسا ہے دنیا سے دوستی، بھیڑیے سے دوستی کی مانند ہے۔ کیا بھیڑیا کبھی کسی کا دوست بن سکتا ہے؟! [خط ۲]

آنجناب کی جانب سے ایک خط، انکے ایک ساتھی کے نام کہ جس میں آپ انہیں نصیحت فرماتے ہیں اور انہیں دنیا پرستی سے روکتے ہیں۔

دنیا سے محبت مت کرو؛ کیونکہ دنیا نے جس سے سب سے زیادہ محبت کی ہے انہیں بھلا دیا ہے۔ اگر تمہیں یقین نہ ہو تو اپنے گزرے ہوئے لوگوں پر غور کرو؛ وہ لوگ جو کبھی تمہارے آس پاس ہوتے تھے آج انکا کوئی پتہ نہیں ہے۔ انکے قصے کہانیوں کو دہراؤ اور انکے نتائج سے سبق حاصل کرو؛ کیوں کہ وہ لوگ بھی تمہاری ہی طرح کے انسان تھے موت نے جنکی گردنوں کو دھر دبوچا، قبر نے جنکے جسموں کو نگل لیا اور زمانے نے جنکے تمام نشانات کو مٹا دیا۔ کیا تم یہ سوچتے ہو کہ انکے سروں پر جو آفتیں آئیں وہ تمہارے سروں پر نہیں آئیں گی۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ جبکہ ان گذرے ہوئے لوگوں میں بہت سارے لوگ تم سے کہیں زیادہ قدرتمند اور ان میں سے بہت سارے تم سے کہیں زیادہ دولت مند تھے لیکن پھر بھی انہیں انکی قدرت و دولت نے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور آخر کار انہیں موت کی کوٹھری میں سر نگوں ہونا پڑا۔ ہوشیار! زندہ لوگوں کے ساتھ تمہارا اٹھنا بیٹھنا تمہیں مردوں سے بے خبر نہ کر دے یہاں تک کہ تم ان سے مال جمع کرنے میں مقابلہ کرنے لگ جاؤ اور گھر بنانے، ساز و سامان خریدنے، ازدواج کرنے اور لذتوں میں ڈوبے رہ جاؤ۔ کیونکہ آج کے زندہ لوگ کل کے مردہ ہونگے بالکل اسی طرح جس طرح سے آج کے مردہ لوگ کل کے زندہ افراد تھے۔ [خط ۲]

آنجناب کی جانب سے ایک خط، انکے ایک ساتھی کے نام کہ جس میں آپ انہیں نصیحت فرماتے ہیں اور انہیں دنیا پرستی سے روکتے ہیں۔

سوئے ہوئے بہت سارے اٹھ نہیں پائے، گئے ہوئے واپس نہ آپائے اور بہت سارے بیمار کہ جنہیں شفا نہیں مل پائ ہے۔ اسی طرح آج جو بھی زندہ ہے اسے مرنا ہے اور جو بھی کھاتا پیتا ہے اسے ایک دن خود مٹی کی خوراک بن جانا ہے۔۔۔ موت سے غافل نہ ہونا؛ کیونکہ موت تم سے غافل نہیں ہے۔ خود کو مرنے کے لئے آمادہ رکھو؛ کیوں کہ نہیں پتہ موت تم پر کب آن پڑے۔ بڑی بڑی خواہشوں کو ترک کرو اور اپنے خواہشات نفس کے پیچھے پیچھے مت دوڑو۔ حصول دنیا پر خوشحال اور ترک دنیا پر غمگین نہ ہو۔ [خط ۲]

آنجناب کا ایک خطبہ جس میں وہ امام مہدی کی غیبت کے نتائج سے ڈرا رہے ہیں اور امام مہدی کے ظہور کی طرف دعوت دے رہے ہیں۔

قول کا ترجمہ: ھان، اے لوگوں! ان لمحوں پر جو کچھ منحصر ہے ، جلدی مت کرو! وقت تنزلی کے نزدیک ہو گیا ہے اور وعدوں کا وقت قریب آ گیا ہے۔ عنقریب غیبت کے لمحے جنکو تم تسکین سمجھتے ہو بہار کے اونٹوں کی طرح مدہوش ہو جایئں گے اور ان کے نوکیلے دانت تمھاری آنکھوں میں دھنس جایئں گے! قسم ہے اس خدا کی جس کے قبضے میں میرا جسم و جان ہے میں جو کچھ کہ رہا ہوں وہ شاعری نہیں ہے اور گفتگو میں مبالغہ آرائ نہیں ہے۔ عنقریب جب زمانے کی دیغ ابلے گی اور وقت کا دریا چڑھے گا اور فتنے کی چکی کو پھیر دے گا اور افرا تفری کی چٹانوں کا رخ موڑ دے گا۔ خطرہ! خطرہ! آگاہ رہو کہ تم میں سے کوئ بھی بخشا نہیں جاۓ گا! وہ تم میں سے ہر غیر سماجی کو بھی لے آیئں گے اور مکھن اور چاچھ نکال لیں گے۔ جب فتنہ زمین پر اترتا ہے تو وہ کھڑا ہوتا ہے اور بیٹھے بیٹھے کاٹتا ہے۔ خطرہ! خطرہ! آج جب کہ تمہیں ایک موقع ملا ہے اپنے دین کو لے لو اور چلے جاؤ! اگر تمہیں میرے پاس حق مل جاۓ تو میری طرف آؤ اگرچہ برف پر چار ہاتھ پاؤں ہوں؛ کیونکہ میں تمہیں امام مہدی کی طرف دعوت دونگا اور اگر تم مجھے نہیں چاہتے اور تم میری طرف آنا پسند نہیں کرتے تو جہاں تک مجھ سے دور جا سکتے ہو چلے جاؤ اگرچہ تم فرار نہیں کر سکتے؛ کیونکہ خدا کی قسم اگر تم آسمان کے ستاروں کے پیچھے چھپ جاؤ تب بھی وہ تمہیں ڈھونڈھ لایئں گے اور تمہیں رسوا کر دیں گے؛ کیونکہ یہ کام اتنا آسان نہیں جتنا تم نے سوچا ہے بلکہ یہ ایک بڑی مصیبت ہے جو ضعیف کو بےتاب اور جوانوں کی نیندیں اڑا دیتی ہے۔ [قول ۱]

ان لوگوں کے بارے میں کہ جو آنجناب کی قدر و منزلت کو نہیں سمجھتے، اور مھدی کی طرف آنجناب کی دعوت کا مزاق اڑاتے ہیں۔

قول کا ترجمہ: سورج کے بنا وہ کس طرح سویرا دیکھیں گے؟بنا پانی کے زمین کس طرح ہریالی دیکھے گی؟! تا ابد ان کی شام باقی رہے گی اور ان کی زمین بنجر بنی رہے گی۔ چونکہ خلیفۂ خدا ان پر غالب نہیں ہیں اور احکام خدا ان کے درمیان جاری نہیں ہوں گے۔ جو خدا پر ایمان نہیں رکھتے ہیں اور جو اس کے لئے کسی شریک کے قائل ہیں، انہیں چھوڑو۔ وہ لوگ ہماری باتوں کا مزاق اڑائیں اور اپنے اسی کھیل تماشے میں سرگرم رہیں؛ وہ لوگ خود کش افراد کی طرح پشیمان ہونگے اور نجاست خور حیوان کی طرح الٹیاں کریں گے۔ اور پھر اس وقت وہ لوگ میری تلاش میں دریاؤں میں غوطے لگائیں گے اور پہاڑوں کو سر کر جائیں گے؛ اس وقت وہ لوگ مجھے پہاڑوں کی دراڑوں میں تلاش کریں گے اور بیابان کے چرواہوں سے میرا پتہ پوچھیں گے تاکہ میں ان سے وہ ساری باتیں دوبارہ کہوں جسے وہ آج سننے پر آمادہ نہیں ہیں اور انہیں ان راستوں کی پھر سے نشاندہی کراؤں جسے وہ آج مجھ سے قبول نہیں کر رہے ہیں۔ [قول ۲]

آنجناب کی طرف سے ایک پیغام ان جوانوں کے لئے کے لئے جو مہدی کے دوستدار ہیں اور ان سے ہدایت چاہتے ہیں۔

قول کا ترجمہ: جب تمام لوگ دائیں اور بائیں تاک رہے ہوں تب آپ ایک درمیانی راستہ اختیار کریں، اور جب تمام لوگ زید اور عمرو کی طرف بھاگ رہے ہوں تو آپ مہدی کی جانب اپنے قدموں کو بڑھائیں۔ خدا کو شدت سے یاد کریں اور جنت کو اپنی قیمت قرار دیں، نماز کو اسکے اول وقت میں ادا کریں اور زکات انکے حقداروں تک پہنچائیں، اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کریں کیوں کہ آپ کا ا اور انکا ساتھ زیادہ نہیں رہنے والا ہے، لوگوں کو اچھائی کی طرف دعوت دیں اور انہیں برائی سے دور کریں اپنے کاموں کو آسان کریں جو چھوڑنے لائق ہے انہیں چھوڑ دیں اور جو لے چلنے لائق ہے اسے اٹھا لیں اور مہدی کی طرف کوچ کرنے کے لئے آمادہ ہو جائیں؛ کیونکہ جب بھی مجھے کافی تعداد میں ہمراہ مل جائیں گے میں انکی طرف کوچ کر جاؤنگا، چاہے میرے اور انکے درمیان سات سمندر ہی کیوں نہ ہوں۔ کون ہے جو مجھے دس ہزار لوگوں کی ضمانت دے تاکہ ظہور مہدی کے لئے میں انکے لئے ضامن ہو جاؤں؟! زمین گندی اور زمان ایک پھوڑے کی مانند ناپاک ہو چکا ہےکہ جسنے اپنا منھ کھول رکھا ہے، لیکن عاقبت پرہیزگاروں کے لئے ہی ہے۔ [قول ۴]

اپنے دوستوں اور پیروکاروں کے لئے آنجناب کی ایک نصیحت

قول کا ترجمہ: میں تمیں اور اپنے تمام ساتھیوں اور پیروکاروں کو باطن اور ظاہر میں خدا سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں اور تم سبھی کو اور ہر اس انسان کو جو بعد میں تم سے ملحق ہونگے نیکی کی طرف دعوت دیتا ہوں اور برائی سے روکتا ہوں۔ واجبات خدا کو انجام دو، اسکے محرمات سے پرہیز کرو اور اسکے حدود کی رعایت کرو۔ ایک دوسرے کے ساتھ مہربان رہو اور کینہ سے پرہیز کرو۔ تواضع اور ادب کو اپنی زینت قرار دو کہ فرزند آدم کے لئے ان دو سے بہتر کوئی اور چیز نہیں ہے، صبر اور نماز کے ذریعے سے خود کو قوی بناؤ کہ خدا کے بندوں کو ان دو سے زیادہ کسی اور سے قوت نہیں ملتی ۔ روز قیامت - چاہے دیر آئے یا جلد، آئےگا ضرور- کے لئے فکر کرو اور وہاں رسوا نہ ہونے کی تدبیر کرو۔ موت کو دھیان میں رکھو کہ موت کی یاد انسان کو گناہوں سے بچانے والی ہے اور یاد خدا سے غافل نہ ہو کہ اسکی یاد شفا بخش دوا ہے۔ لازم ہے تمہارے چھوٹے، تمہارے بڑوں کا احترام کریں اور تمہارے بڑے تمہارے چھوٹوں پر رحم کریں۔ اچھوں کی سنگت میں رہو اور بروں کی سنگت سے پرہیز کرو۔ [قول ۵]

اپنے دوستوں اور پیروکاروں کے لئے آنجناب کی ایک نصیحت

قول کا ترجمہ: بے خبر افراد کو با خبر کرو اور جاہل افراد کو سکھاؤ۔ گمراہوں کی ہدایت کرو اور سوال کرنے والوں کے جواب دو۔ بیوقوفوں کی بیوقوفی پر صبر کرو؛ جب تک وہ تم سے پریشان ہیں تمہیں برا بھلا کہیں گے اور جب تک وہ تم سے غمزدہ ہیں تم پر بہتان باندھیں گے؛ کیونکہ تم سے پہلے پیغمبروں کے ساتھ بھی انہوں نے یہی کیا ہے اور تم میں سے اکثر میرے ساتھ بھی یہی کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے درمیان تمہاری مثال پرندوں کے درمیان شہد کی مکھی کی طرح ہے؛ کوئی بھی پرندہ ایسا نہیں ہے جو اسے چھوٹا نہ سمھتا ہو، اگر انہیں اس کی حقیقت کا علم ہو جاتا کہ وہ کیا چیز خود میں لئے ہوۓ ہے تو وہ اسے ہرگز چھوٹا شمار نہیں کرتے۔ زمین آلودہ ہو چکی ہے اور زمان بدبودار مردار کی مانند ہو چکا ہے، لیکن ہر اندھیر ے کے بعد اجالا ہے لہذا صبر کرو؛ کیونکہ ظہور مہدی نزدیک ہے۔ [قول ۵]

مقدّمہ

حضرت علاّمہ منصور ہاشمی خراسانی حفظہ اللہ تعالی کے اسباق کہ ان کا مقصد لوگوں کی آبیاری کرنا اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دینا اور ان کا محور و اساس قرآن و سنّت اور ان کا موضوع اسلامی عقائد و احکام و اخلاقیات ہے اور ہم نے ان میں سے ایک ایسی چیز کا انتخاب کیا ہے جو زیادہ اہم اور متعلّقہ ہے اور ہم نے اسے اسطرح مرتّب کیا ہے کہ صاحب تحقیق و مطالعہ کے لۓ آسان ہو اور ہم نے ان کے لۓ اقتباسات اور کچھ ضروری وضاحتوں سمیت تبصرے لکھے ہیں۔ [اسباق کا مقدّمہ]

مقدّمہ

اسباق کا ہر باب ایک اعتقادی، فقہی یا اخلاقی مسئلے کے بارے میں ہے اور تین فصلوں پر مشتمل ہے:

• فصل یکم قرآن کی آیات کا اظہار ہے جو مذکورہ مسائل سے متعلّق ہیں، اور جن میں حضرت علّامہ حفظہ اللہ تعالیٰ کی قیمتی تفسیریں، ان کے روشن خطابات سے آیات کے معانی اس طرح اخذ کیے گئے ہیں کہ جو دلوں کو سکون دیتے اور لوگوں کو اندھیرے سے روشنی کی طرف لے جاتے ہیں، وضاحت کرتا ہے۔

• فصل دوم میں پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی وہ صحیح احادیث بیان کی گئی ہیں جو مذکورہ مسئلے سے متعلق دلائل اور ان کے نتائج کو واضح کرتی ہیں، اور جن میں حضرت علّامہ حفظہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دقیق نکات اور مفید وضاحتیں شامل ہیں، جو احادیث کے معانی، راویوں کی حالت اور علما کے نظریات کی وضاحت کرتی ہیں۔

• فصل سوم میں اہل بیت علیہم السلام کی وہ صحیح احادیث بیان کی گئی ہیں جو مذکورہ مسئلے سے متعلق شواہد اور ان کے متعلّقہ پہلوؤں کو بیان کرتی ہیں، اور اس میں وہی چیزیں شامل ہیں جو فصل دوم میں مذکور ہیں۔ [اسباق کا مقدّمہ]

مقدّمہ

قاعدہ حضرت علاّمہ حفظہ اللہ تعالی کے نزدیک خبر متواتر کا حجّت ہونا اور خبر واحد کا حجّت نہ ہونا ہے خبر متواتر اس کے نزدیک وہ ہے جو ہر طبقے کے چار سے زیادہ مردوں نے بیان کی ہو، اس شرط کے ساتھ کے وہ ایک دوسرے کے نزدیک نہ ہوں اور معنی میں اختلاف نہ رکھتے ہوں اور جو کچھ انھوں نے بیان کیا ہے وہ خدا کی کتاب یا پیغمبر صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے ثابت شدہ روایت یا عقل سلیم سے متصادم نہ ہو۔ اسی طرح وہ چیز جو ہر طبقے کے چار مردوں نے بیان کی ہے وہ خبر متواتر کے حکم میں ہے یعنی وہ ایک نتیجہ ہے اس شرط کے ساتھ کے وہ پچھلی تین شرائط کے علاوہ وہ عادل ہوں اور یہی بات چار مردوں سے زیادہ نہ ہونے پر راویوں کی حالت کا جائزہ لینا ضروری بناتی ہے۔ لیکن ان کی حالت کا جائزہ جب بھی وہ اس تعداد سے کم یا زیادہ ہوں تو یہ وہی کام ہے جو علاّمہ حفظہ اللہ تعالی ذمّہ داری سے انجام دیتے ہیں کیونکہ اکثر مسلمان کسی ایک ثقہ یا اخلاص کی خبر کی صداقت پر یقین رکھتے ہیں اور جو کچھ پانچ آدمیوں نے بیان کیا ہے اسکو متواتر نہیں سمجھتے۔ لہذا حضرت علاّمہ حفظہ اللہ تعالی ثقہ یا حقّانیت کے راویوں نے جو کچھ بیان کیا ہے اسے اختیار کرتے ہیں تاکہ انکے اوپر حجّت ہو اور وہ ہدایت پایئں۔ [اسباق کا مقدّمہ]

مقدّمہ

البتّہ احادیث کی سند کے لۓ علاّمہ حفظہ اللہ تعالی کی شرط یہ ہے کہ ان کے معنی کو خدا کی کتاب، اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ و سلّم سے ثابت شدہ اور عقل سلیم کے مطابق ڈھالنے کے بعد ان کے راویوں کی روایت ان لوگوں پر ثقہ یا دیانت دارانہ ہے جو ان کے مذہب والے ہیں، ان کے مخالف نہیں؛ جیسا کہ جابر ابن یزید جعفی نے حالیہ تشریح میں بیان کیا ہے اورفرمایا ہے: «معیار، شخص کی حالت اسکے ساتھیوں کے نزدیک ہے (یعنی اسکے مذہب والے) کیونکہ وہ اس کی حالت سے زیادہ واقفیت رکھتے ہیں اور دوسرے لوگوں کی راۓ جب بھی اسکے ساتھیوں کے قول کے خلاف ہو، تو حجّت نہیں ہے؛ کیونکہ وہ اس سے بہت دور ہیں اور ہو سکتا ہے کہ اسکے مذہب کی ناپسندیدگی کی بناء پر وہ اسے برا بھلا کہیں اس کا ثبوت پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کا کام ہے جو آپ نے یہودیوں سے فرمایا: ’عبد اللہ بن سلام تم میں سے کیسا آدمی ہے؟‘ تو انہوں نے کہا: ’ہم میں اچھّا اور ہم میں اچھّے کا بیٹا، اور ہمارا سرور اور ہمارے سرور کا بیٹا اور ہمارا عالم اور ہمارے عالم کا بیٹا‘ تو انھوں نے اس کے بارے میں جو کہا اسے قبول کر لیا؛ کیونکہ وہ اسکے ساتھی تھے، اور پھر جب انھیں اطّلاع ملی کہ وہ مسلمان ہو گیا تو انھوں نے بہتان تراشی شروع کر دی اور کہنے لگے: ’ہم میں سب سے برا اور ہم میں سب سے برے کا بیٹا‘ لیکن اسکے بعد کے جب وہ مذہب میں اسکے مخالف ہو گۓ تو انکی باتوں کو اسکے بارے میں قبول نہیں کیا اور اگر مذہب میں مخالفین کی بات قبول کر لی جاۓ تو حدیث میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہے گا کیونکہ ہر قبیلہ دوسرے قبیلے کو برا بھلا کہتا ہے؛ جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ شیعہ اہل سنّت کی روایت پر عمل نہیں کرتے سواۓ اسکے جو وہ اپنے خلاف دلیل کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور دیکھتے ہو کہ اہل سنّت شیعوں کی روایت کو حیرانی اور طنز کے علاوہ نہیں دیکھتے اور وہ دونوں ہی راستے کو درمیان سے کھو چکے ہیں، لیکن ہم ہر اس چیز کو قبول کرتے ہیں جو مسلمان خدا کی کتاب کے مطابق بیان کرتے ہیں جب بھی اپنے ساتھیوں کے نزدیک سچ کہنے میں مشہور ہونگے کسی بھی مذاہب کے ساتھ بغیر تعصّب رکھے ہونگے»۔ [اسباق کا مقدّمہ]

مقدّمہ

حضرت علاّمہ حفظہ اللہ تعالی کے لۓ جو معیار ہے وہ اسلام ہے اور راوی کی اپنے قبیلے کے ساتھ امانت یا دیانت کی شرط ہے، نا کہ اسکے مذہب یا مخالفین کی کمزوریاں بغیر کسی قابل قبول وجہ کے۔ تو اگر راوی اہل سنّت میں سے ہے تو اسکی حالت کا معیار اہل سنّت کے ساتھ ہے اور اسکی حالت شیعوں کے نزدیک معیار نہیں ہے اور اگر راوی شیعہ ہے تو اسکی حالت کا معیار شیعوں کے پاس ہے اور اسکی حالت اہل سنّت کے نزدیک معیار نہیں ہے اور شیعہ اور سنّی روایات میں کوئ فرق نہیں ہے جب وہ مذکورہ بالا تین اصولوں سے ہم آہنگ ہوں اور انکے راوی اپنے مذہب میں اپنی امانتداری یا دیانت داری کے لۓ جانے جاتے ہوں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حضرت علاّمہ حفظہ اللہ تعالی شیعوں کی روایتوں کو اہل سنّت کی روایات کی طرح اختیار کرتے ہیں اور کسی کی بھی روایت کو اسکے مذہب کی وجہ سے نہیں چھوڑتے جب کہ اسکا مذہب دین کی ضرورت کے خلاف نہ ہو، اس طریقے سے جو اسے اسلام سے خارج کر دے؛ کیونکہ اس صورت میں وہ منافق ہے اور منافق کسی بھی طرح سے قابل اعتماد نہیں ہے حالانکہ تمام لوگ اسے ثقہ سمجھتے ہوں۔ [اسباق کا مقدّمہ]

ایک بہت اہم قاعدہ جسے ہر مسلمان کو جاننا چاہۓ اور اس پر توجہ دینا چاہۓ وہ ہے اسلام میں شک کا حجت نہ ہونا۔ اللہ تعالی نے قرآن کی مختلف آیات میں تاکید کی ہے اور فرمایا ہے ﴿إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا یعنی «حقیقت کے لۓ شک کافی نہیں ہے» اور کسی بھی شخص کو شک کی پیروی کرنے کے لۓ منع کیا ہے اور فرمایا ہے ﴿إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ یعنی «وہ شک کے علاوہ پیروی نہیں کرتے اور وہ کسی چیز کا اندازہ نہیں لگاتے» یہ اس معنی میں ہوا کہ انسان کا عقیدہ اور عمل ایک ساتھ یقین کے اوپر ٹکا ہوا ہو اور وہ عقیدہ اور عمل کہ جو شک کے اوپر ٹکا ہوا ہو وہ صحیح نہیں ہے اور خدا کے نزدیک بھی قابل قبول نہیں ہے۔ یہ اسطرح ہے کہ عقائد اور اعمال میں دوسروں کی تقلید کا مطلب ہے کہ ان کے قول و فعل کی پیروی دلیلوں کو جانے بغیر اور اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع صرف شک کو جنم دیتا ہے یقین کا باعث نہیں ہوتا، اس وضاحت کے ساتھ، قرآن میں خدا کے واضح بیان کے مطابق «حق کے سوا کچھ بھی کافی نہیں ہے»۔ [سوال و جواب ۱]

کچھ لوگوں کی دلیلیں جو اعمال میں تقلید کو جائز سمجھتے ہیں یہ ہے کہ وہ اعمال کو عقائد سے جدا سمجھتے ہیں، جبکہ اسطرح کا کوئ بھی فرق اسلام سے ثابت نہیں ہے اور اللہ کا بیان قرآن مجید میں عام ہے اور اس میں اعمال و عقائد شامل ہیں۔ اسکا مطلب یہ ہوا جسطرح ہر مسلمان لکھنا پڑھنا اور اپنی زندگی کی دیگر ضروریات کو سیکھتا ہے اعمال و عقائد اسلامی کو بھی سیکھے اور کسی بھی عقیدے یا عمل کو بغیر کسی قطعی اور یقینی دلیل کے قبول نہ کرے اور انجام نہ دے۔ قطعی اور یقینی دلیل اسلام میں اسی طرح ہے کہ جیسے حضرت علامہ منصور ہاشمی خراسانی حفظہ اللہ تعالی نے کتاب «اسلام کی طرف واپسی» میں بیان فرمایا ہے، قرآنی آیات اور متواتر احادیث یقینا خدا کے خلیفہ سے زمین پر سننا ہے اور یہی خالص و کامل اسلام شمار کیا جاۓ گا کہ جو شکوک سے آلودہ نہیں ہے۔ [سوال و جواب ۱]

جناب منصور کے نزدیک عقل اور شریعت دونوں کا ماخذ ایک ہے اور دونوں ہی خداۓ حکیم کی خلقت ہیں اسلۓ دونوں میں کوئ تضاد نہیں ہے؛ جیسا کہ اللہ نے خود فرمایا ہے: ﴿مَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ؛ «خدا کی خلقت میں کوئ فرق نہیں دیکھو گے» اور اس صفت کے ساتھ، عقل کی پیروی کا مطلب شریعت کی پیروی نہ کرنا اور اس پر اولویت دینا نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس شریعت کی پیروی کے معنی میں بھی ہے؛ کیونکہ شریعت نے ماخذ کی وحدت اور عقل کے ساتھ اس کی مکمّل مطابقت کے سبب عقل کی پیروی کا حکم دیا ہے اور اسکی طرف بلایا ہے؛ جیسا کہ مثال کے طور پر فرمایا ہے: ﴿لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ؛ «امّید کی جاتی ہے کہ تم عقل کو کام میں لاؤ» اور فرمایا ہے: ﴿أَفَلَا تَعْقِلُونَ؛ «کیا تم عقل کو کام میں نہیں لاؤگے؟!» اس بناء پر جناب منصور عقل کو شریعت پر اولویت نہیں دیتے اور اس بات کے معتقد نہیں ہیں کہ تم شریعت کی جگہ عقل کی پیروی کرو، بلکہ وہ عقل کو شریعت کے موافق سمجھتے ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تم دونوں کی پیروی کرو۔ [سوال و جواب ۲]

یہ عقل کو معیار شناخت سمجھتے ہیں اور اس حیثیت سے کہا جا سکتا ہے کہ عقل کو شرع پر اولویت دیتے ہیں، لیکن یہ اس وجہ سے ہے کہ شریعت عقل کے وسیلے سے پہچانی جاتی ہے اور شریعت کی شناخت خود اسکے وسیلے سے ممکن نہیں ہے؛ کیونکہ واضح ہے کہ اعتبار قرآن کو پہچاننے کے لۓ قرآن، سنّت کے اعتبار کی شناخت کے لۓ سنّت سے استناد نہیں کیا جا سکتا اور اسطرح کا کام مناسب نہیں ہے۔ اس وجہ سے، شریعت کے اعتبار کو پہچاننے کے لۓ عقل کے استناد کے علاوہ کوئ اور چارہ نہیں ہے اور اسی وجہ سے، عقل کو شریعت پر ایک قسم کی ضروری اور فطری ترجیح حاصل ہے اور شریعت بھی اس اولویت کو رسمی طور پر پہچانتی ہے، لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ شریعت کے تمام احکامات جیسے نماز کے احکام، روزہ، حج، اور زکات مستقل طور پر عقل کے ذریعے پہچانے جاتے ہیں؛ اسلۓ کہ اس قسم کے احکامات خداوند عالم کے ایجادات میں سے ہیں کہ عقل ان کے اسباب و علل کو شمار نہیں کر سکتی اور ناگزیر اس کا خود خداوند عالم سے سننا ضروری سمجھتی ہے۔ اس وجہ سے شناخت کے لۓ عقل کا معیار ہونا اس کا شریعت سے بےنیاز ہونے کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ شریعت کی تمام چیزوں کی شناخت کے لۓ ذریعہ ہونے کے معنی میں ہے کہ جو بلاشبہ اسکے ذاتی اور بدیہی اعتبار سے ممکن ہے۔ [سوال و جواب ۲]

سلف کے متعلق جناب کی باتوں کا ما حصل یہ ہے پہلی بات تو یہ کہ سلف کا آئندہ آنے والوں کے بنسبت زیادہ عالم اور فاضل ہونا قطعی نہیں ہے اور یہ بات عقلی اور شرعی طور پر بھی ثابت نہیں ہو سکتی ہے یہ بات صرف اور صرف ایک احتمال ہے، اور یہ احتمال انکی تقلید کے جواز پر بطور دلیل کافی نہیں ہے اور دوسرا اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ سلف، آئندہ آنے والوں سے زیادہ عالم ہیں، تب بھی یہ قطعی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ انکا علم صحیح اور کامل طور پر آئندہ آنے والوں کی طرف منتقل ہوا ہے کہ جس بات پر انکی تقلید جائز اور واجب ہو جائے اور سلف کو آئندہ آنے والوں کی نسبت سے زیادہ فاضل مان بھی لیا جائے تو انکا یہ فضل، آخرت میں انکے زیادہ اجر ہونے کے بنا پر ہوگا کہ جو اب بھی اس دنیا میں انکی تقلید کے جواز پر دلیل کے طور پر کافی نہیں ہے۔ اس لئے، جناب منصور ہاشمی خراسانی کے نظریے کے مطابق، مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ سلف کو چھوڑ کر کتاب خدا اور پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی یقینی سنت پر عمل کریں؛ بالکل اسی طرح جس طرح خود سلف اسی بات کی کوشش کرتے تھے اور وہ اپنے سلف کی اتباع نہیں کیا کرتے تھے اور نہ اپنے سے بعد میں آنے والوں سے یہ کہا کرتے تھے کہ انکی اتباع کی جائے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جو کسی با خبر سے پوشیدہ نہیں ہے۔ [سوال و جواب ۳]

متواتر احادیث کو چھوڑ کر احادیث کا مشتبہ ہونا صرف «منصور ہاشمی خراسانی» کا نظریہ نہیں ہے، بلکہ سلفیوں کے ایک گروہ کو چھوڑ کر تمام اسلامی فرقوں کے عام مسلمان علماء کا ہے اور یہ ایک واضح اور وجدانی حقیقت ہے اس حد تک کہ بعض مسلم علماء کے نزدیک جیسے کہ نووی (م:۶۷۶ھ) سے صحیح مسلم کی شرح میں ہے کہ «اس چیز کا انکار محسوس کے مدّ مقابل لج بازی کے سوا کچھ نہیں ہے» کیونکہ واحد احادیث فطری طور پر اسطرح ہیں کہ ان میں غلطی، تحریف اور جھوٹ کا امکان ہے اور اس امکان کے باوجود ان کے جاری ہونے کا کوئ یقین نہیں ہے۔ [تنقید اور جائزہ ۱]

شبہ کا حجّت نہ ہونا قرآن کریم میں خدا کا واضح بیان ہے، جو اس نے بارہا تاکید کے ساتھ فرمایا ہے: ﴿إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا؛ «یقینا حق پر شک کافی نہیں ہے» اور واضح ہے کہ خدا کا یہ واضح بیان عقلی اصول کی رہنمائی ہے؛ کیونکہ عقل بھی حقیقت کو جاننے کا واحد معیار یقین کو سمجھتی ہے اور شبہ، شک، اور وہم کو ان میں تضاد کے امکان کی وجہ سے حقیقت جاننے کے لۓ کافی نہیں سمجھتی، اور یہ واضح ہے کہ عقلی فیصلے قابل تفویض نہیں ہیں؛ جیسا کہ خدا کا واضح بیان، پانی کے اختصاص کے بارے میں ہے؛ اس معنی میں کہ اس کے فیصلہ کن اور واضح لہجے اور سیاق و سباق کے مطابق فطرت پر اسکے مضمرات کو دیکھتے ہوۓ، یہ شک کرتا ہے مختص کو برداشت نہیں کرتا؛ اس حقیقت کے علاوہ کہ کسی ایک خبر کے نتیجے میں پیدا ہونے والے شبہات کی تقسیم اکثریت کی ایک بڑی تعداد کو مختص کرنا ہے، جسے یکسان سمجھا جاتا ہے؛ اس بات کو مدّ نظر رکھتے ہوۓ کہ بہت سے لیکن زیادہ تر شبہات ایک خبر کی وجہ سے ہوتے ہیں اور پےدر پے خبریں شک کا باعث نہیں بنتیں اور غیر خبر سے پیدا ہونے والے شبہات بھی اقلیت میں ہیں۔ لہذا عقلی اور مذہبی اعتبار سے کسی ایک خبر کو دوسرے شبہات سے خارج کرنا ممکن نہیں۔ [تنقید اور جائزہ ۱]

حضرت منصور ہاشمی خراسانی اجتہاد کا مطلب مشتبہ دلائل سے فیصلے کو ناکافی سمجھتے ہیں، اور یہ واضح طور پر اسلام میں شبہ کے کافی نہ ہونے پر مبنی ہے؛ کیونکہ جب اسلام میں شبہ کافی نہیں ہے تو اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا کہ اسکا ماخذ تقلید ہے یا اجتہاد ہے، بلکہ اسکا ماخذ جو بھی ہو کافی نہیں ہے۔ [تنقید اور جائزہ ۱]

مندرجہ بالا معنوں میں تقلید اور اجتہاد کا کافی نہ ہونا، اس لحاظ سے کہ وہ مفید شبہات ہیں، اس کے لۓ مذہبی فرائض کے زوال کا مطالعہ یا یقین کو حاصل کرنے کی ذمّہ داری کی ضرورت ہے، البتّہ چونکہ دینی فرائض کا زوال ممکن نہیں ہے اس لۓ ان کے لۓ حصول یقین کی ضرورت متعیّن ہے اور ان کے لۓ یقین حاصل کرنا دو طریقوں سے ممکن ہے: خدا کی کتاب اور اسکے پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی یقینی سنّت کہ جو آنحضرت اور انکے خلیفہ کی مسلسل اخبار سے ظاہر ہوتی ہے۔ [تنقید اور جائزہ ۱]

خوش قسمتی سے، اسلام کے بہت سے ضروری اور بنیادی احکام، جیسے نماز، روزہ، زکات اور حج کے ارکان، جن کی وضاحت حضرت منصور ہاشمی خراسانی نے اپنی کتاب کے ایک حصّے میں کی ہے، یہ خدا کی کتاب اورا سکے پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی یکی بعد دیگر خبروں کے ذریعہ معلوم ہوتی ہے اور اس تفصیل سے ان پر عمل کرنا مجازی ہے، لیکن اسلام کے دیگر احکام پر یقین کرنے اور ان سے بریّ الذّمّہ ہونے کے لۓ زمین پر خدا کے خلیفہ کی طرف رجوع کرنے کے سوا کوئ چارہ نہیں ہے اور یہ کام حضرت منصور ہاشمی خراسانی کے نزدیک ممکن ہے؛ کیونکہ اس کی طرف رجوع کرنے میں رکاوٹ، لوگوں کے ذریعہ ابتدائ شرائط فراہم کرنے کی غلطی کے سوا کچھ نہیں ہے اور فطری طور پر اس رکاوٹ کو دور کرنے کا مطلب لوگوں کے ذریعہ اسکی طرف رجوع کرنے کے لۓ ابتدائ شرائط کو فراہم کرنا ہے اور وہ انکے لۓ ممکن ہے اور اگر اس کام کے لۓ ان میں سے کافی لوگوں کا جمع ہونا ضروری ہے اور وہ ان میں سے کافی لوگوں کو جمع نہیں کر پاتے تو اسمیں حضرت منصور ہاشمی خراسانی کا کوئ قصؤر نہیں ہے بلکہ خود لوگوں کا قصور ہے اور ان لوگوں کا ہے جو لوگوں کو اس کام سے روکتے ہیں۔ [تنقید اور جائزہ ۱]

منصور ہاشمی خراسانی کی تحریر کردہ کتاب «اسلام کی طرف واپسی» کا جائزہ

اس کتاب میں چیلنج کۓ گۓ اہم مسائل میں سے ایک تقلید ہے۔ مصنّف گزرے ہوؤں کی تقلید اور ظالم حکمرانوں کی تقلید کو اسلامی ثقافت کے زوال کا سبب سمجھتا ہے اور ظالم اور زیرک حکومتوں کے خلاف مسلمانوں کے قیام کو جائز قرار دیتا ہے چاہیں وہ مسلمان ہونے کا بہانہ کیوں نہ کریں؛ جسطرح کافروں کی تقلید کے معنی میں غیر اسلامی نظریات اور نمونوں کی پیروی کا مطلب مسلمانوں کی مادّی اور دنیاوی ترقّی ہی نہیں بلکہ ان کی تہذیب اور تمدّن کا زوال بھی ہے۔ اس کے علاوہ وہ عوام میں سے اکثریت کی تقلید کو غلط سمجھتا ہے اور اجماع اور شہرت کے جواز کو مذہبی وجوہات کے پیش نظر مسترد کرنے کے بعد ان کے شبہات پر غور کرتے ہوۓ وہ نظریاتی طور پر جمہوریت پر تنقید کرتا ہے اور اسے غیر مؤثّر شمار کرتا ہے خاص طور پر ان معاشروں میں جہاں لوگوں میں اکثریت کی ذہنی نشو و نما نہیں ہوتی۔ اسی طرح وہ علماء کی تقلید کی بھی تردید کرتا ہے کیونکہ یہ شبہ کے لۓ مفید ہے اور شبہ اسلام میں حجّت نہیں ہے اور اسے زمانہ قدیم سے مسلمانوں کے اختلاف کا ایک سبب مانتا ہے۔ پھر وہ اجتہاد کو لغوی معنی میں نہیں سمجھ پاتا جو مشتبہ دلائل سے کسی فیصلے کا استنباط ہے وہ اسلام میں مشتبہ دلائل کے باطل ہونے پر غور کرتا ہے اور یقین ہونے کے لۓ دوسرا راستہ ضروری سمجھتا ہے۔ [مقالہ ۱]

منصور ہاشمی خراسانی کی تحریر کردہ کتاب «اسلام کی طرف واپسی» کا جائزہ

مصنّف نے مزید توہّم پرستی کو مسلمانوں کے عقائد اور اعمال پر اثر انداز ہونے والے عوامل کے طور پر شمار کیا ہے اور اسکو فروغ دینے کے لۓ وہ بعض صوفیوں پر تنقید کرتا ہے اور مسلمانوں میں غیر معقولیت اور غیر مذہبی اور ذوق و شوق سے بھرپور شاعری پھیلانے والے کردار کو نمایاں کرتا ہے۔ وہ اسی طرح بہت سارے شعراء پر خوبصورت لیکن غلط اشعار لکھنے پر بھی تنقید کرتا ہے جو انبیاء کی تعالیمات سے متصادم ہیں اور وہ انکو جادوگر، حریف اور انبیاء کا دشمن سمجھتا ہے، جو لوگوں کو «زخرف القول» اور «لہو الحدیث» سے خدا کی راہ سے ہٹاتے ہیں۔ [مقالہ ۱]

منصور ہاشمی خراسانی کی تحریر کردہ کتاب «اسلام کی طرف واپسی» کا جائزہ

ایک اور بنیادی اور اہم موضوع جس پر منصور ہاشمی خراسانی نے اپنی جداگانہ اور چیلنجنگ کتاب «اسلام کی طرف واپسی» میں تبصرہ کیا ہے وہ اسلامی حکومت کا موضوع ہے۔ اس کے نقطہ نظر سے لوگوں پر حکمرانی صرف خدا کے لۓ ہے اور اس کے سوا کسی کو ان پر حکومت کرنے کا حق نہیں ہے اور وہ نائب یا اصطلاح میں «خلیفہ» مقرّر کر کے ان پر اپنی حاکمیت استعمال کرتا ہے۔ البتّہ اسلامی حکومت کی تشکیل اور اسکے سیاسی جواز کی بنیاد خدا کی خاص اور قطعی اجازت ہے جو کہ عالم اسلام میں موجودہ حکمرانوں میں سے کسی کو بھی حاصل نہیں ہے اور اسی لۓ ان میں سے کسی کی بھی حکومت فی الحال اسلامی حکومت نہیں سمجھی جائگی۔ وہ اسلامی حکومت کی ضرورت کے لۓ خدا کی طرف سے ایک خاص اور قطعی حاکم کی تقرّری کو اسلام اور دیگر ابراہیمی مذاہب کے لۓ واضح اور ضروری مسائل میں سے ایک سمجھتا ہے اور اس بارے میں بحث و مباحثہ کوئ معنی نہیں رکھتا۔ بلا شبہ مصنّف تمام اسلامی فرقوں کے تمام مسلم علماء کے بر عکس عوام کو ایسے حکمران تک رسائ کا حامل سمجھتا ہے اور اسکا خیال ہے کہ ایسے حکمران تک ان کی رسائ نہ ہونے کی وجہ ان کے تصوّر کے بر خلاف خدا کی حکمت نہیں ہے بلکہ شرائط فراہم کرنے میں انکی غلطی ہے اور جب بھی وہ یہ شرائط بطور عادّی حاصل کر لینگے خلیفہ خداوند تک رسائ کا احساس ہوتا رہے گا۔ تاہم، ان کی اس حاکم تک رسائ کی کمی اس کے علاوہ کسی حکمران کے لۓ عذر نہیں ہے کیونکہ ایک طرف خدا کے مقرّر کردہ حاکم تک ان کی رسائ کے امکان کے پیش نظر کسی دوسرے حاکم کے اختیار کی ضرورت نہیں ہے اور دوسری طرف اس حاکم تک ان کی رسائ نہ ہونا انکی اپنی غلطی ہے؛ اور اس وجہ سے وہ کسی دوسرے حکمران کے اختیار میں ہوتے ہوۓ ایک عذر کی طرح استعمال نہیں کۓ جا سکتے اگرچہ ان کے پاس کوئ اختیار نہیں ہے۔ اسطرح اسلامی حکومت زمین پر خدا کے خلیفہ کی حکومت سے ہی ممکن ہے اور زمین پر خدا کے خلیفہ کی حکومت عوام کے ارادے اور اختیار سے ہی ممکن ہے۔ [مقالہ ۱]

منصور ہاشمی خراسانی کی تحریر کردہ کتاب «اسلام کی طرف واپسی» کا جائزہ

خراسانی کتاب «اسلام کی طرف واپسی» میں ایک اور جگہ اسلام کے قیام کو اسکی خالص اور مکمّل شکل میں مفید اور کارآمد سمجھتا ہے اور اسکا خیال ہے کہ اسلام کے کسی حصّے کو اکیلے یا کسی اور باہری چیز کے ساتھ قائم کرنا مفید اور کار آمد نہیں ہے بلکہ نقصان دہ اور خطرناک بھی ہو سکتا ہے اور یہ اکثر مسلمانوں کے اس تصوّر کے خلاف ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کا ایک حصّہ قائم کرنا بھی مطلوب اور مؤثّر ہے۔ وہ اسلام کو ایک «مشین» سے تشبیہ دیتا ہے کہ اگر مشین کا ایک «جز» کام نہ کرے تو دوسرے اجزاء اپنی کار کردگی کھو دینگے اور پوری «مشین» نا کام ہو جائگی۔ لہذا مسلمانوں کے پاس اس کے سوا کوئ چارہ نہیں کہ وہ مکمّل اسلام کو اس کی خالص شکل میں قائم کریں اور یہ زمین پر خدا کے خلیفہ کی تعلیم سے ہی ممکن ہے۔ [مقالہ ۱]

منصور ہاشمی خراسانی کی تحریر کردہ کتاب «اسلام کی طرف واپسی» کا جائزہ

اس کتاب میں ایک اور بنیادی اور چیلنج کرنے والا مسلہ یہ ہے کہ مصنّف اسلامی حدود اور سزاؤں کے نفاذ کو اسلام کے تمام عمومی اور سیاسی احکام کے نفاذ سے مشروط سمجھتا ہے اس کا خیال ہے کہ ان حدود اور سزاؤں کی قانون سازی زمین پر خلیفہ الہی کی حکمرانی کے مطابق، وقت اور جگہ کے مطابق کی جاتی ہے جس میں اسلام کے تمام احکام بنا رکاوٹ نافذ ہوتے ہیں۔ اسلۓ ان حدود اور سزاؤں کا دوسرے وقت اور جگہ پر نفاذ منصفانہ اور متناسب نہیں ہے؛ خاص طور پر اس بات پر غور کریں کہ مصنّف کے نقطہ نظر سے اسلام کے احکام ایک دوسرے سے وابستہ اور پیوستہ ہیں اور ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے متاثّر ہوتے ہیں۔ [مقالہ ۱]

کتاب ڈاؤنلوڈ اور سوفٹ ایر