یہ تمام آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ وہ لوگ جو حجّیت خدا کا انکار کرتے ہیں اور عقل کا استعمال نہیں کرتے خداوند عالم کے نزدیک ایسے لوگ نادان اور ناپاک ہیں بلکہ ان تمام آیتوں کی صراحت حجّیت عقل اور اس کی ضرورت کے اوپر ہے اور شاید اس کا منکر اسلام سے خارج سمجھا جائے گا۔ میں نے بارہا اس فرقے سے سنا ہے کہ یہ لوگ عقلیات کو مردود سمجھتے ہیں اور ہر طرح کی عقلانیت کو شریعت کو سمجھنے کے لئے بدعت جانتے ہیں۔ روشن ہے کہ اگر ان میں سے ایک فرد پر یہ عقیدہ قائم ہو جائے تو احکام مرتد یا منافق اس کے اوپر جاری ہونگے؛ کیونکہ شریعت میں عقل اور اسے استعمال کرنا ضروریات اسلام میں ہے جس سے تجاہل رہنا قابل قبول عذر نہیں ہے۔
[منکرین حجیت عقل کے شبہات]
ہم اس نتیجے تک پہنچے کہ جو چیز اس گروہ کو عقل کی حجّیت کا منکر بناتی ہے وہ ہر چیز سے زیادہ ان کے نظریوں کا نامعقول ہونا ہے؛ کیونکہ حجّیت عقل کا عقیدہ لازمہ ہے ان تمام نامعقول نظریوں کے چھوڑ دینے کا، اور یہ وہ کام ہے جسے چھوڑنے کو وہ تیار نہیں ہیں۔ میں نے ان کو دیکھا ہے کہ بعض یہ چاہتے ہیں کہ مر جائیں تاکہ اپنے آبا اجداد کے نظریوں سے چھٹکارا ملے، جیسے مشرک کہتے ہیں: ﴿إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَى آثَارِهِمْ مُهْتَدُونَ﴾؛ «ہم نے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا اور ہم انھیں کے نقش قدم پر ھدایت پانے والے ہیں» ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے: ﴿أَوَلَوْ جِئْتُكُمْ بِأَهْدَى مِمَّا وَجَدْتُمْ عَلَيْهِ آبَاءَكُمْ﴾؛ «کیا میں اس سے بہتر پیغام لایا ہوں جو تم نے اپنے باپ دادا سے پایا ہے؟!»۔ اس بنا پر یہ حقیقت میں خدا کی عبادت نہیں کرتے بلکہ اپنے آباء و اجداد کی عبادت کرتے ہیں۔ یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے کیونکہ دنیا میں اپنے اجداد کی پرستش کرنا بہت قدیمی سلسلہ ہے!
یقینا وہ لوگ جو عقل کو حجت نہیں مانتے ان کی نظر میں عقل کے ادراکات محدود ہیں۔ جب عقل کے ادراکات محدود ہیں تو عقل معیار شناخت نہیں ہو سکتی ہے حالانکہ ان کے نزدیک عقل کے ادراکات کی محدودیت ان کے غلط ہونے کے معنی میں نہیں ہے۔ عقل کی محدودیت حجّیت کیلئے مانع نہیں ہے۔ حجّیت تو ہے، مگر ادراکات الٰہی کے مقابلے میں عقل کی حجّیت کم ہے۔ کیونکہ عقل ایسی مخلوق ہے جو ذاتی محدود ہے۔ اس بنا پر عقل ہر چیز نہیں جان سکتی۔ لیکن جو چیز جان لیتی ہے وہ صحیح جان لیتی ہے اور یہی اس کی حجّت بننے کیلئے کافی ہے۔ جیسے آنکھ ساری چیز کو نہیں دیکھتی ہے لیکن جو چیز دیکھ لیتی ہے وہ صحیح دیکھ لیتی ہے۔ کان ہر چیز نہیں سنتا لیکن جو چیز سن لیتا ہے وہ صحیح سنتاہے۔ اور یہی آنکھ اورکان کے حجّت ہونے کے لئے کافی ہے۔ کامل معرفت صرف اللہ کو ہے اور اس کے علاوہ کوئی بھی شناخت کامل کا حامل نہیں ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے جو اس نے شریعت بھیجی ہے وہ کامل ہے لیکن شریعت کا کامل ہونا شریعت کو عقل سے متعارض نہیں کرتا ہے کیونکہ عقل جن چیزوں کے بارے میں گفتگو کرتی ہے شریعت ان کے خلاف نہیں ہے کیونکہ عقل تو وہاں کچھ کہتی نہیں جہاں شریعت کی مخالفت ہو۔ جیسے جنت دوزخ جو غیبی ماہیت ہے عقل ان کے بارے میں خاموش ہے لیکن شرع ان کے بارے میں بتاتی ہے۔ تو اس طرح شرع کی باتیں عقل کے خلاف شمارنہیں کی جائیں گی۔ اور کچھ عبادتیں بھی ایسی ہیں جو صرف اعتبار کی حامل ہیں تبعاً ان کے بارے میں بھی عقل خاموش ہے۔ لیکن شرع انکے بارے میں بیان کرتی ہے۔ اس دلیل کے ساتھ شرع کی بات عقل کے خلاف نہیں کہی جائے گی۔ خصوصی طور پر اس توجہ کے ساتھ کہ چونکہ عقل شرع کی حجّیت کو درک کرتی ہے۔ اس طرح سے ان ممکن وقائع کے اعتبار عملی اور اخبار قطعی کو قبول کرتی ہے۔