پیر ۱۴ اکتوبر ۲۰۲۴ برابر ۱۱ ربیع الثّانی ۱۴۴۶ ہجری قمری ہے
منصور ہاشمی خراسانی
حضرت علّامہ منصور ہاشمی خراسانی حفظہ اللہ تعالی کے دفتر کے معلوماتی مرکز (ویب سایٹ) کا اردو زبان میں آغاز ہو گیا ہے۔
loading
تنقید اور جائزہ
 

اگر منصور ہاشمی خراسانی کے نزدیک احادیث (چند کو چھوڑ کر) مشتبہ سمجھی جاتی ہیں، تو اس بناء پر میں محترم مراجع تقلید کی توضیح المسائل کے علاوہ کسی بھی قسم کے احکام شرعی کہاں سے تلاش کروں؟ خیال رہے کہ وہ اجتہاد کو بھی نہیں مانتے! نماز کے احکام جو قرآن میں بیان ہوۓ ہیں «إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا» (النساء/ ۱۰۳) یعنی «بلا شبہ نماز مؤمنین پر فرض ہے» کو کہاں سے لوں؟ روزہ کے وہ احکام جو قرآن میں بیان ہوۓ ہیں «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ» (البقرہ/ ۱۸۳) یعنی «اے ایمان والوں تم پر روزے فرض کۓ گۓ ہیں» کو کہاں سے لوں؟ اور باقی تمام احکام ان اعمال کے لۓ جو قرآن میں واجب ہیں۔ کیا میں انکو ابھی کے لۓ چھوڑ دوں اور خود جاؤں اور لوگوں کی کثیر تعداد کو اسطرح تربیت دوں کہ خدا کے خلیفہ کا ظہور ہو جاۓ اور پھر نماز روزہ وغیرہ انجام دوں؟ یہ تو بالکل منطقی نہیں ہے!

براہ کرم نیچے دۓ گۓ نکات پر توجّہ فرمایئں:

اوّلا، متواتر احادیث کو چھوڑ کر احادیث کا مشتبہ ہونا صرف «منصور ہاشمی خراسانی» کا نظریہ نہیں ہے، بلکہ سلفیوں کے ایک گروہ کو چھوڑ کر تمام اسلامی فرقوں کے عام مسلمان علماء کا ہے اور یہ ایک واضح اور وجدانی حقیقت ہے اس حد تک کہ بعض مسلم علماء کے نزدیک جیسے کہ نووی (م:۶۷۶ھ) سے صحیح مسلم[۱] کی شرح میں ہے کہ «اس چیز کا انکار محسوس کے مدّ مقابل لج بازی کے سوا کچھ نہیں ہے» کیونکہ واحد احادیث فطری طور پر اسطرح ہیں کہ ان میں غلطی، تحریف اور جھوٹ کا امکان ہے اور اس امکان کے باوجود ان کے جاری ہونے کا کوئ یقین نہیں ہے۔

ثانیا، شبہ کا حجّت نہ ہونا «منصور ہاشمی خراسانی» کا نظریہ نہیں ہے بلکہ قرآن کریم میں خدا کا واضح بیان ہے، جو اس نے بارہا تاکید کے ساتھ فرمایا ہے: ﴿إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا[۲]؛ «یقینا حق پر شک کافی نہیں ہے» اور واضح ہے کہ خدا کا یہ واضح بیان عقلی اصول کی رہنمائ ہے؛ کیونکہ عقل بھی حقیقت کو جاننے کا واحد معیار یقین کو سمجھتی ہے اور شبہ، شک، اور وہم کو ان میں تضاد کے امکان کی وجہ سے حقیقت جاننے کے لۓ کافی نہیں سمجھتی، اور یہ واضح ہے کہ عقلی فیصلے قابل تفویض نہیں ہیں؛ جیسا کہ خدا کا واضح بیان، پانی کے اختصاص کے بارے میں ہے؛ اس معنی میں کہ اس کے فیصلہ کن اور واضح لہجے اور سیاق و سباق کے مطابق فطرت پر اسکے مضمرات کو دیکھتے ہوۓ، یہ شک کرتا ہے مختص کو برداشت نہیں کرتا؛ اس حقیقت کے علاوہ کہ کسی ایک خبر کے نتیجے میں پیدا ہونے والے شبہات کی تقسیم اکثریت کی ایک بڑی تعداد کو مختص کرنا ہے، جسے یکسان سمجھا جاتا ہے؛ اس بات کو مدّ نظر رکھتے ہوۓ کہ بہت سے لیکن زیادہ تر شبہات ایک خبر کی وجہ سے ہوتے ہیں اور پےدر پے خبریں شک کا باعث نہیں بنتیں اور غیر خبر سے پیدا ہونے والے شبہات بھی اقلیت میں ہیں۔ لہذا عقلی اور مذہبی اعتبار سے کسی ایک خبر کو دوسرے شبہات سے خارج کرنا ممکن نہیں اور یہ حضرت منصور ہاشمی خراسانی کا قصور نہیں ہے۔

ثالثا، یہ کہ واحد اور مشتبہ خبر کی صداقت نہ ہونے کی وجہ سے تقلید کا جائز ہونا «محترم مراجع تقلید کی» لازم نہیں آتا، بلکہ واضح طور پر اسکی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ ایک طرف تو ان حضرات کے اکثر فتاوی کی بنیاد واحد اور مشتبہ خبر ہے البتّہ ان اخبار کی صداقت نہ ہونے کی وجہ سے ان کی تقلید جائز نہیں ہے اور دوسری طرف تمام مسلمانوں کے اجماع اور ضمیر کے مطابق ان کی تقلید کرنا احکام خدا پر شک کرنے کے لۓ مفید ہے جب کہ خدا اپنے احکام پر شک کو کافی نہیں سمجھتا اور فرماتا ہے: ﴿إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا[۳]؛ «یقینا حق پر شک کافی نہیں ہے»۔ اس بناء پر، محترم مراجع تقلید، کی تقلید خدا کے نزدیک کافی نہیں ہے؛ اس لحاظ سے کہ یہ فرض سے بری ہونے کا سبب نہیں بنتا اور یہ بھی حضرت منصور ہاشمی خراسانی کا قصور نہیں ہے!۔

رابعا، حضرت منصور ہاشمی خراسانی اجتہاد کا مطلب مشتبہ دلائل سے فیصلے کو ناکافی سمجھتے ہیں، اور یہ واضح طور پر اسلام میں شبہ کے کافی نہ ہونے پر مبنی ہے؛ کیونکہ جب اسلام میں شبہ کافی نہیں ہے تو اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا کہ اسکا ماخذ تقلید ہے یا اجتہاد ہے، بلکہ اسکا ماخذ جو بھی ہو کافی نہیں ہے، اور یہ اس سے زیادہ واضح ہے جسکی توضیح کی ضرورت ہے۔

خامسا، مندرجہ بالا معنوں میں تقلید اور اجتہاد کا کافی نہ ہونا، اس لحاظ سے کہ وہ مفید شبہات ہیں، اس کے لۓ مذہبی فرائض کے زوال کا مطالعہ یا یقین کو حاصل کرنے کی ذمّہ داری کی ضرورت ہے، البتّہ چونکہ دینی فرائض کا زوال ممکن نہیں ہے اس لۓ ان کے لۓ حصول یقین کی ضرورت متعیّن ہے اور ان کے لۓ یقین حاصل کرنا دو طریقوں سے ممکن ہے: خدا کی کتاب اور اسکے پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی یقینی سنّت کہ جو آنحضرت اور انکے خلیفہ کی مسلسل اخبار سے ظاہر ہوتی ہے۔ خوش قسمتی سے، اسلام کے بہت سے ضروری اور بنیادی احکام، جیسے نماز، روزہ، زکات اور حج کے ارکان، جن کی وضاحت حضرت منصور ہاشمی خراسانی نے اپنی کتاب کے ایک حصّے میں کی ہے، یہ خدا کی کتاب اورا سکے پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی یکی بعد دیگر خبروں کے ذریعہ معلوم ہوتی ہے اور اس تفصیل سے ان پر عمل کرنا مجازی ہے، لیکن اسلام کے دیگر احکام پر یقین کرنے اور ان سے بریّ الذّمّہ ہونے کے لۓ زمین پر خدا کے خلیفہ کی طرف رجوع کرنے کے سوا کوئ چارہ نہیں ہے اور یہ کام حضرت منصور ہاشمی خراسانی کے نزدیک ممکن ہے؛ کیونکہ اس کی طرف رجوع کرنے میں رکاوٹ، لوگوں کے ذریعہ ابتدائ شرائط فراہم کرنے کی غلطی کے سوا کچھ نہیں ہے اور فطری طور پر اس رکاوٹ کو دور کرنے کا مطلب لوگوں کے ذریعہ اسکی طرف رجوع کرنے کے لۓ ابتدائ شرائط کو فراہم کرنا ہے اور وہ انکے لۓ ممکن ہے اور اگر اس کام کے لۓ ان میں سے کافی لوگوں کا جمع ہونا ضروری ہے اور وہ ان میں سے کافی لوگوں کو جمع نہیں کر پاتے تو اسمیں حضرت منصور ہاشمی خراسانی کا کوئ قصؤر نہیں ہے بلکہ خود لوگوں کا قصور ہے اور ان لوگوں کا ہے جو لوگوں کو اس کام سے روکتے ہیں۔ تاہم یہ «مکمّل طور پر غیر معقول» صورت حال ہے جس نے آپ کو حیران کر دیا ہے، ایک ایسی صورت حال ہے جو لوگوں نے اپنے لۓ پیدا کر رکھی ہے، جیسے چور جو کسی کے گھر میں داخل ہوتے ہیں اور آخر وقت میں نماز ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، جب کہ وہاں ان کی نماز باطل ہے، اور یہ ایک «غیر معقول» صورت حال ہے جو انھوں نے اپنے لۓ پیدا کی ہے، اور اسکے نتیجے میں وہاں ان کی نماز درست نہیں ہے؛ جیسا کہ حضرت منصور ہاشمی خراسانی نے اس تلخ اور تلخ حقیقت کو «لوگوں پر مہدی کے ظہور نہ ہونے کے نتائج» کے حصّے میں تفصیل سے بیان کیا ہے؛ مسلمانوں کو اپنی ذلّت اور بے گھری کا مہدی کا ظہور نہ ہونے کی صورت میں پتہ چلے اور جلد از جلد اس کے پاس جایئں۔ جی ہاں، مہدی کے ظہور کی یہ زمینہ سازی پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک «عظیم بے بسی» سے آگاہ کرتی ہے اور واضح اور علمی حل پیش کر کے اس سے نکلنے کا مطالبہ کرتی ہے، لیکن ان میں سے اکثر نہ سنتے ہیں اور نہ سمجھتے ہیں، سواۓ چند کے، جن کے دلوں کو خدا نے ایمان کے لۓ آزمایا ہے اور یقینا وہی کافی ہونگے ان شاء اللہ۔

↑[۱] . شرح صحيح مسلم للنووي، ج۱، ص۱۳۲
↑[۲] . یونس/ ۳۶
↑[۳] . یونس/ ۳۶
منصور ہاشمی خراسانی کے دفتر کی آفیشل ویب سائٹ تنقیدوں اور جائزے کا سیکشن
ھم آہنگی
ان مطالب کو آپ اپنے دوستوں کے ساتھ بھی شیئر کریں تاکہ دینی معلومات کو پھیلانے میں مدد ملے۔ نئی چیز سیکھنے کا شکر دوسروں کو وہی چیز سکھانے میں ہے۔
ایمیل
ٹیلیگرام
فیسبک
ٹویٹر
اس متن کا نیچے دی ہوئ زبانوں میں بھی مطالعہ کر سکتے ہیں
اگر دوسری زبان سے واقفیت رکھتے ہیں تو اِس متن کا اُس زبان میں ترجمہ کر سکتے ہیں۔ [ترجمے کا فارم]
تنقید لکھنا
عزیز کار کنان! آپ اپنی علمی تنقیدیں کہ جو علّامہ منصور ہاشمی خراسانی کے خدمات سے لی گئ ہیں نیچے دۓ گۓ فارم میں لکھۓ اور ہمیں بھیجۓ تاکہ اس علمی بخش میں شامل کی جا سکے۔
توجّہ: ممکن ہے کہ آپ کا نام تنقید کرنے والوں میں ویب سائٹ پر دکھایا جاۓ۔
توجّہ: ہمارا جواب آپ کے ایمیل پر ارسال کر دیا جاۓ اور کیونکہ ویب سائٹ پر پوسٹ نہیں کیا جاۓ گا لازم ہے کہ اپنے ایڈرس (پتہ) کو صحیح طریقے سے وارد کیجۓ ۔
مہربانی کر کے نیچے دۓ گۓ نکات پر توجّہ فرمائیں:
۱ ۔ ممکن ہے کہ آپ کے ذریعہ کی ہوئ تنقید ویب سائٹ پر پہلے سے موجود ہو اسی لۓ اپنی تنقید سے پہلے موضوع سے مربوطہ تنقیدوں کو مرور کریں یا ویب سایٹ پر امکان جستجو سے استفادہ کریں۔
۲ ۔ بہتر ہے کہ مختلف اور غیر مربوطہ تنقیدوں کو ایک ساتھ لکھنے سے گریزکریں کیونکہ اس طرح کی تنقیدیں ویب سائٹ پر ایک مدّت میں مدّت معمول سے زیادہ الگ کرنے کے لۓ چنی جاتی ہیں۔