جمعرات ۱۱ ستمبر ۲۰۲۵ برابر ۱۸ ربیع الاوّل ۱۴۴۷ ہجری قمری ہے
منصور ہاشمی خراسانی
حضرت علّامہ منصور ہاشمی خراسانی حفظہ اللہ تعالی کے دفتر کے معلوماتی مرکز (ویب سایٹ) کا اردو زبان میں آغاز ہو گیا ہے۔
loading

بہرحال، اصحاب پیغمبر کی غفلت ان واضح اور ضروری مبنیات سے عجیب نظریہ تک پہنچی ہے؛ کیونکہ آنحضرت کے بعد حکومت کے سلسلے سے مسلمانوں کا اختلاف اس تصور پر مبنی تھا کہ حکومت مسلمانوں کے لئے ہے لہٰذا وہ کسی کو بھی منتخب کرنے کا حق رکھتے ہیں؛ یہاں تک کہ متواتر اور مشہور روایتوں کی بناء پر ان میں بہت سے لوگ ایک مکان میں جمع ہو گئے جسے سقیفۂ بنی ساعدہ کہا جاتا ہے ان میں ہر فرقے کی کوشش تھی کہ حکومت اپنے اختیارمیں لے یہاں تک کہ نزدیک تھا کہ اس بات کے لئے وہ آپس میں لڑیں اور بعض، بعض کو پائمال کریں! اس حالت میں ان کا نزاع اس مسئلہ پر تھا کہ کیا رسول خدا کے گھر میں حکومت رہے یا ان کے گھر سے باہر آئے؟ تو جو لوگ اس نزاع میں کامیاب ہو گئے انھوں نے کہا آنحضرت کی حکومت ان کے گھر میں نہیں رہے گی، بلکہ باہر رہے گی، ان کی دلیل یہ تھی کہ ایک گھر میں نبوت اور خلافت کا اجتماع ہو اس بات کی عرب اجازت نہیں دیتا ہے؛ جبکہ یہ بات مسلّم ہے کہ خلیفہ کے تعین کے لئے عرب یا عجم کی رضایت کوئی معنی نہیں رکھتی ہے حاکم کو معین کرنا جیسا کہ واضح ہے خدا کی رضایت پر مبنی ہے اور اس کی رضایت اس کے پیغمبر کے وسیلے سے اعلان ہوتی ہے جیسا کہ اس نے طالوت کی حاکمیت کا اعلان کیا لہٰذا اس وصف کے ساتھ ان پر واجب تھا کہ وہ خدا کے چنے ہوۓ پیغمبر کی طرف رجوع کریں اور جس شخص کو آنحضرت نے خدا کی طرف سے حاکم کے عنوان سے پہچنوایا ہے اسکو اپنے اوپر حکومت کے لئے مسلّط کریں؛ لیکن انھوں نے اسلام سے تعلق رکھنے کے باوجود اس کام سے انکار کیا؛ کیونکہ ایک طرف تو زمانہ جاہلیت کے قریب ہونے کی وجہ سے وہ ابھی تک آپس میں بعض قبائلی دشمنیوں کا سامنا کر رہے تھے، اور دوسری طرف، ان میں سے بعض نے پیغمبر کی سیاسی نصوص کو آپ کی دیگر نصوص کے برعکس آپ کے اختیار کا مکمّل علم نہ ہونے کی وجہ سے لازم نہیں سمجھا اور اسی دلیل کی وجہ سے یہاں تک کہ آنحضرت کے زمانے میں بھی اس طرح کے حکم سے خاص طور پر ایسے معاملات میں جو نبی کے خاندان سے متعلق تھے اعتراض کرتے تھے؛ جیسا کہ نمونے کے طورپر بہت سے محدثوں نے جیسے ابن جعد (م:۲۳۰ھ)[1]، ابن حنبل (م:۲۴۱ھ)[2]، بخاری (م:۲۵۶ھ)[3]، مسلم (م:۲۶۱ھ)[4]، ابو داؤد (م:۲۷۵ھ)[5]، ترمذی (م:۲۷۹ھ)[6] اور دوسروں نے[7]،

↑[۱] . ابن جعد، المسند، ص۳۶۰
↑[۲] . احمد بن حنبل، المسند، ج۵، ص۹۳ اور ۹۸
↑[۳] . بخاری، صحیح البخاري، ج۸، ص۱۲۷
↑[۴] . مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج۶، ص۳ اور ۴
↑[۵] . ابو داؤد، السنن، ج۲، ص۳۰۲
↑[۶] . ترمذی، السنن، ج۳، ص۳۴۰
↑[۷] . مانند: ابن ابی عاصم، الآحاد والمثاني، ج۳، ص۱۲۷؛ ابن حبان، صحیح ابن حبان، ج۱۵، ص۴۴؛ حاکم نیشاپوری، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۶۱۷۔