[انسان محوری]
شاید «سفسطہ» ایک قسم کا انسان محوری ہے یعنی لوگوں کو حقائق سے دور کرنے کے لئے شک و شبہات میں ڈالنا جو آج بھی جہان کفر پر حکمرانی کر رہا ہے، کیونکہ آج بھی جہان کفر بے دین فلسفی «ماکیاولی» (م:۱۵۲۷ء) کے تحت تاثیر ہے جو سوفسطائیوں کے میراث خور ہیں انھیں سے اس فکر کوحاصل کیا ہے۔ جنھوں نے بنیادی مفاہیم کی جدید تعریفیں اختراع کر کے اخلاقی معیاروں کو اس کی فطری اور تاریخی تعریفوں سے ہٹا کر مادی ہوس کا تابع بنا لیا ہے۔ مثال کے طور پر، ان کی لغتوں میں انصاف اور آزادی کا نیا مفہوم درحقیقت سب سے زیادہ مادیت پر منحصر ہے۔ ان کی نظر میں، ٹھیک سوفسطائیوں کی طرح حق کو اپنے نظریات کے تابع سمجھا جاتا ہے۔ ہر وہ بات جو ان کے نظریات کے موافق قرار پاتی ہے اچھی اور ہر وہ بات جو ان کے منافع کے خلاف ہو بری ہے۔ واضح ہے کو یہ بشری مرکزی نظریہ، درحقیقت خدا کی مرکزیت کے خلاف ایک تحریک ہے اور ایسے نظریات کے بانی خدا کو نہیں مانتے تھے۔ کیونکہ اسلامی نظریے کے مطابق خدا کی ذات حق کا سر چشمہ ہے اور انسان حق کا تابع ہے۔ جبکہ فلسفہ ألحاد میں انسان حق کا سر آغاز ہے اور خدا کا اس میں کو ئی دخل نہیں۔ دوسرے الفاظ میں، حق کی وحدانیت پر یقین، تو حیدی عقیدہ ہے۔ جبکہ حق کی تکبیر، ایک شرک آمیز عقید ہ ہے جس کا سر چشمہ وحدانیت خدا سے انکار اور حق کو غیر واحد ماننا ہے۔
[تصویب گرایان]
تعجب اس بات پر نہیں ہے کہ کافروں کے درمیان ایسے ملحدانہ نظر یے پائے جاتے ہیں بلکہ تعجب اس بات پر ہے کہ ایسے ملحدانہ نظریے مسلمانوں کے درمیان بھی پائے جاتے ہیں۔ مثلاً دوسری اور تیسری ہجری میں ایک مسلم فرقہ تھا جو امویوں کی حکمرانی کے زمانے میں ان کے سیاسی عوامل کے ماتحت تھا اور صحابہ کے نظریے سے اختلاف کرتے ہوئے اس فرقے نے نظریۂ الحادی بہ طور میراث اپنا لیا تھا۔ اور یہ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ حق مجتہد کے نظریے کا تابع ہوتا ہے، اور اس کے متعدد نظریے سے حق بھی متعدد ہو جاتا ہے۔ اس لئے اس فرقے کو «مصوبہ» کہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ مجتہد جس چیز کو حق سمجھتا ہے وہ اللہ کے نزدیک بھی حق ہے اور وہ جس چیز کو حق نہیں سمجھتا وہ خدا کے نزدیک بھی حق نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مجتہد اللہ کے نظریہ کا تابع نہیں ہوگا بلکہ اللہ مجتہد کے نظریہ کا تابع ہوگا اور مجتہد کے کہنے کے مطابق ہی حق وجود میں آئے گا۔ شاید یہ خیال کیا جائے کہ اس نظریے کوماننے والے شاذ و نادر ہونگے، مسلمانوں کا کوئی ایک چھوٹا سا فرقہ ہوگا، جبکہ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ در حقیقت فرقۂ اشاعرہ اور معتزلہ کے اکثر ماننے والے اس نظر ئے کو قبول کرتے ہیں۔ اور بعض بڑی شخصیتیں بھی مثلاً ابو حنیفہ (م:۱۵۰ھ)، مالک (م:۱۷۹ھ)، شافعی (م:۲۰۴ھ) و ابن حنبل (م:۲۴۱ھ) اسی گروہ میں شامل ہیں۔ لیکن یقینی طور پر ان کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جا سکتی کیونکہ مورداختلاف ہے۔