جمعرات ۱۸ دسمبر ۲۰۲۵ برابر ۲۷ جمادی الثّانی ۱۴۴۷ ہجری قمری ہے
منصور ہاشمی خراسانی
حضرت علّامہ منصور ہاشمی خراسانی حفظہ اللہ تعالی کے دفتر کے معلوماتی مرکز (ویب سایٹ) کا اردو زبان میں آغاز ہو گیا ہے۔
loading

کیونکہ وہ کلی طور پر اس طرح کی روایات کو نہیں مانتے تھے اور عقل کو تمام احکام میں روایات پر تر جیح دیتے تھے! ان تمام بیانات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سلفی مسلمان نے ایسا نظریہ اپنے پہلے والے لوگوں سے اخذ کیا ہے اکثر نظریہ عیسائی رہنماؤں کا ہوتا تھا یہاں تک کہ یہی نظریہ مسلمان رہنماؤں میں بھی رہا اور عمل کے میدان میں بھی انھیں نتائج کو اسلامی معاشرے میں رائج کیا گیا جو عیسائی معاشرے میں رائج تھا؛ کیونکہ مثال کے طور پر خود خداوند عالم اپنی مخلوقات کی طرح نہیں ہے اور عین اسی حالت میں کہ وہ سمت و حرکت اور جوارح حقیقی رکھتا ہے۔ یہ وہی متناقض اندازہ ہے جس میں خدا کی وحدانیت کا اعتقاد ٹھیک اسی حالت میں خدا کے باپ اور بیٹا اور روح القدس ہونے کو تسلیم کرتا ہے۔ لہٰذا سلفی مسلمان اپنی مستند ظنی روایات سے استدلال کرتے ہوئے ایسے شرک آمیز عقیدوں کو ترجیح دیتے ہیں جیسے عیسائی اپنی مستند ظنی روایات سے اس طرح کے کام انجام دیتے ہیں۔ بلکہ سلفی مسلمان نے عقل سے ٹکرانے والی باتوں کو اس مقام تک پہنچا دیا ہے کہ اپنی مستند ظنی روایات کے ذریعے محسوسات کا بھی انکار کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کرّۀ ارض اور سورج کے گرد زمین کا چکر لگانے کا انکار کرتے ہیں او ر اس بات کے معتقد ہیں کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے![1] میں نے خود ان کے عالموں میں سے ایک عالم سے ملاقات کی اور اس بارے میں گفتگو بھی کی اور اس کے سامنے وضاحت کی کہ سورج کے گرد زمین کا گھومنا متواتر حدیث ہے بلکہ محسوسا ت میں سے ہے جس میں تردید کرنا ایک بے ہودگی ہے۔ لیکن اس نے مجھ سے کہا کہ اگر خود آنکھ کی رویت اور زمین کا گھومنا سورج کے گرد مشاہدہ کرے، تصدیق نہیں کرتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک روایات مخالف ہیں۔ یہ نظریہ قرونِ وسطیٰ کے چرچ کے نظریے جیسا ہے یہی اس گروہ کی عقل کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جبکہ عقل سے انحراف، خدا سے انحراف کا لازمہ ہے؛ کیونکہ عقل خدا کی مخلوق ہے اور وہ صرف وسیلہ ہے جو انسان کے اندر کسی چیز کی شناخت کیلئے قرار دی گئی ہے۔ اسی وصف کے ساتھ عقل کی ضدیت انسان کے ارادہ اور فعل کی ضدیت کے معنی میں ہے! ایسے افراد جو عقل کو شریعت کا رقیب سمجھتے ہیں وہ اس بڑی حقیقت سے غافل ہیں کہ عقل اور شریعت ایک سر چشمے سے لئے گئے ہیں دونوں خدائے واحد کی مخلوق ہیں! کیا خدا کی خلقت میں اختلاف ہے؟ کیا اس کی کچھ مخلوقات دوسری مخلوقات کی نقیض کرتی ہیں؟ تو یہ بات واضح ہے کہ ایسا ہر گز نہیں ہے؛ کیونکہ افعال خداوند حکمت سے خالی نہیں ہیں۔ کوئی بھی دوسرے کی نقیض نہیں کرتے؛ جیسا کہ قرآن مجید میں خدا کا فرمان ہے: ﴿مَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ[2]؛ «خدا کی خلقت میں کوئی نقیض نہیں دیکھو گے»۔ دوسرے الفاظ میں، جس نے شریعت کو بھیجا ہے وہی ہے جس نے عقل کو پیدا کیا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ عقل اور شرع کا تناقض محال ہے۔ جو لوگ عقل اور شرع کو تضاد سمجھتے ہیں، نادانستہ طور پر الحاد کی طرف توجہ کر لی ہے اور وہ عقل کے خالق کو شریعت کے خالق سے الگ سمجھتے ہیں۔ عقل و شریعت کے تنازع کا عقیدہ شرک آمیز ہے جو عقیدۂ توحید کے مقابلے میں وجود میں آیا ہے۔ کیونکہ عالم میں دو قسم کا وجود اور تکوین کی ضدیت کا تشریع کے ساتھ پایا جانا صرف الحادی نظریے پر موقوف ہے! اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ شرع عقل کے موافق ہے اور واضح طور پر اس کی تصدیق کرتی ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: ﴿إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ[3]؛ «ہم نے قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا ہے شاید تم غور و فکر کرو» ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے: ﴿كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ[4]؛ «اس طرح پروردگار عالم اپنی آیتوں کو بیان کرتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو» ایک دوسری جگہ فرماتا ہے: ﴿إِنَّ فِي ذَلِكَ لَـآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ[5]؛ «اس میں اس گروہ کے لۓ نشانیاں ہیں جو عقل کو استعمال کرتے ہیں» اور فرماتا ہے: ﴿إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ[6]؛ «اللہ کے نزدیک بد ترین زمین پر چلنے والے وہ بہرے اور گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے» ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرماتا ہے: ﴿صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ[7]؛ «یہ کفار بہرے، گونگے اور اندھے ہیں انھیں عقل سے سرو کار نہیں ہے» ایک اور جگہ ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ[8]؛ «اور وہ ان لوگوں پر خباثت کو قرار دیتا ہے جو عقل استعمال نہیں کرتے»۔

↑[۱] . مثال کے طور پر، ملاحظہ ہو: بن باز، الأدلّۃ النقلیّۃ والحسّیّۃ علی جریان الشمس وسکون الأرض۔
↑[۲] . الملک/ ۳
↑[۳] . یوسف/ ۲
↑[۴] . البقرہ/ ۲۴۲
↑[۵] . الرعد/ ۴
↑[۶] . الانفال/ ۲۲
↑[۷] . البقرہ/ ۱۷۱
↑[۸] . یونس/ ۱۰۰