جمعرات ۱۳ نومبر ۲۰۲۵ برابر ۲۲ جمادی الاوّل ۱۴۴۷ ہجری قمری ہے
منصور ہاشمی خراسانی
حضرت علّامہ منصور ہاشمی خراسانی حفظہ اللہ تعالی کے دفتر کے معلوماتی مرکز (ویب سایٹ) کا اردو زبان میں آغاز ہو گیا ہے۔
loading

پہلا مقدمہ؛ شناخت اور پہچان کا معیار

معیارِ شناخت کے لئے ایک عمومی قاعدہ ہوتا ہے اور اسی کے ذیل میں اسلام کی شناخت کے معیار کے لئے جزئی قاعدہ بھی ہوتا ہے جس کو بیان کرنے کے لئے چند مقدمات ضروری ہیں۔

۱ ۔ معیار شناخت کی ضرورت

دنیا میں ہر چیز کی شناخت کے لئے ایک معیار کی ضرورت ہے اور اسلام کی شناخت بھی اس اصول سے خارج نہیں۔ شناخت یا پہچان کا مطلب ایک چیز کو دوسری چیز سے الگ کرنا ہے مثلا برائی کو اچھائی سے، باطل کو حق سے، یا غلط کو صحیح سے، اور یہ تب ممکن ہے جب تمیزدینے کے لئے کوئی معیار موجود ہو۔ ظاہر ہے کہ بغیر کسی معیار کے کوئی فیصلہ ممکن نہیں ہوتا اور اگر بالفرض ممکن ہوبھی تو ہر شخص اپنے طریقے سے ایک الگ نتیجے تک پہنچے گا جو کہ خود اسکے حتمی فیصلے کو ناممکن بنادے گا۔ لہٰذا بغیر کسی معیار کے یہ فرض یا تشخیص نا ممکن ہے کہ کون سا فیصلہ صحیح اور کون سا غلط ہے۔ مسلمانوں کا وہ باہمی اختلاف جو ان کے ضعف کی وجہ اور ان کے دشمنوں کی اصلی قوت کا باعث بناہوا ہے ہو سکتا ہے کہ وہ اسلام کی شناخت کے معیار کے فقدان یا اس پر عمل پیرا نہ ہونے کہ وجہ سے ہو۔ اور یہی امر معیار شناخت کی ضرورت اور اس پر کار بند ہونے کو پہلے کے مقابل اور زیادہ اہم بنادیتا ہے۔

۲ ۔ معیار شناخت کا ایک ہونا

مسلمانوں کا باہمی اختلاف، اسلام سے متعلق اس کی اختلافی سمجھ کے باعث ہے۔ مسلمانوں کے مختلف طبقے یا مسلک اسلام سے متعلق الگ الگ پہچان رکھتے ہیں اور دوسروں کی سمجھ کو قبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کے اختلاف سے آزادی، بغیر کسی مشترک سمجھ یا شناخت واحد کے ممکن اور کسی شناخت واحد تک پہونچنے کے لئے واحد معیار شناخت کی ضرورت ہے۔ مختلف معیار، مختلف النوع شناخت یا سمجھ کی وجہ بنتے ہیں۔ ایک چیز کی متعدد شناخت، اختلاف کی وجہ بنتی ہے اور مسلمانوں کے لئے باہمی اختلاف اچھی بات نہیں۔ خدا خود فرماتا ہے: ﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا[1]؛ «اللہ کی رسی مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو» اور یہ آیہ کریمہ خوداس بات کی دلیل ہے کہ خدا ئے تعالیٰ کی رسی ایک واحد رسی ہے، کیونکہ اگر ایک سے زیادہ ہوتی تو اس رسی کا پکڑ نا اتحاد نہیں بلکہ اختلاف وجود میں لاتا۔

↑[۱] . آل عمران/ ۱۰۳