بدھ ۹ جولائ ۲۰۲۵ برابر ۱۳ محرّم ۱۴۴۷ ہجری قمری ہے
منصور ہاشمی خراسانی
حضرت علّامہ منصور ہاشمی خراسانی حفظہ اللہ تعالی کے دفتر کے معلوماتی مرکز (ویب سایٹ) کا اردو زبان میں آغاز ہو گیا ہے۔
loading

بہت ممکن ہے ایک متعلم اپنے ایک معلم کے علم کو دوسرے معلم کے علم سے ملا کر اضافہ کر لے۔ لہٰذا گذشتگان سے آئندہ آنے والوں کا عالم تر ہونا کوئی بہت بڑی بات نہیں ہے۔ جیسا کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے: ﴿نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَنْ نَشَاءُ ۗ وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ[1]؛ «ہم جس کو چاہتے ہیں اس کے درجات کو بلند کر دیتے ہیں اورہر صاحب علم سے بر تر ایک صاحب علم ہوتا ہے»۔ اسی طرح ایک اہل حدیث کی روایت ہے: «خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ»[2] یہ روایت بھی جو سابقہ مسلمانوں کی آئندہ مسلمانوں پر بر تری کی طرت دلالت کرتی ہے اس سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آئندہ مسلمانوں کو سابقہ کی پیروی لازمی طور پر کرنی چاہئے؛ اس لئے کہ خود پیغمبر کے زمانے میں منافقین کے رہبروں کاہونا اور اسی طرح آنحضرت کے دو سو سال بعد ظالموں کے رہبروں کے وجود کا ہونا اس بات کے اوپر دلالت کرتا ہے کہ ایک طرف سے واحد روایت کا ہونا فطری طور پر غیر یقینی ہے۔ اوردوسری طرف اہل حدیث کی روایت اس مضمون کے ساتھ: «مَثَلُ أُمَّتِي مَثَلُ الْمَطَرِ لَا يُدْرَى أَوَّلُهَا خَيْرٌ أَوْ آخِرُهَا»[3] کے مطابق کہ جو سابقہ مسلمانوں کی آئندہ مسلمانوں پر بر تری کو بے اعتبار بناتی ہے، تنازعہ ہوتا ہے اور اسکے نتیجے میں ساقط ہو جاتی ہے[4]۔

اس کے باوجود حق یہ ہے کہ پہلے والے مسلمانوں کا علم شریعت کے بارے میں اسی وقت ثابت ہوگا جب وہ آنے والے مسلمانوں کیلئے قابل پیروی ہو جو صحیح و کامل ان کے توسط سے منتقل ہوا ہو۔ حالانکہ قطعی طور پر وہ علم وجود نہیں رکھتا ہے اور صرف حسن ظن موجود اور ظن و گمان کو ایک اہم دلیل نہیں مانا جاتا؛ جیسا کہ اللہ نے ارشاد فرمایا ہے: ﴿إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا[5]؛ «جب کہ گمان حق کے بارے میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا ہے»؛ کیونکہ پیغمبر کے بعد پہلے والے مسلمانوں کے درمیان فکری و سیاسی اختلاف بہت ہیں اور مسلمانوں پر جابر حاکم کا تسلط ہونا، صحیح و کامل علم کو چھپا نے کے لئے بہت زیادہ دعوے ان کے توسط سے پائے جاتے ہیں۔ بلکہ بسا اوقات اس کا اظہار کرنا بھی مسلمانوں کی جان و مال عزت آبرو پر خطرہ تھا۔ اس کے علاوہ کچھ لوگ حتمی طور پر دوسری اور تیسری نسل کے لوگ دنیا کی خواہش اوراپنے نفس کی پیروی کرتے تھے تبعا اپنے علم کو جان بوجھ کر چھپا تے تھے۔ چنانچہ بہت زیادہ متضاد روایتیں نقل ہوئی ہیں۔ لہٰذا اگر چہ شریعت کے بارے میں اسلام کے پہلے والے مسلمانوں کا علم ترہونا مسلّم ہوگا لیکن ان کے توسط سے صحیح اور کامل علم کا اظہار آئندہ مسلمانوں کے لئے مسلّم نہیں ہے۔ اور یہی دلیل آنے والے مسلمانوں کے لئے ان کی پیروی نہ کرنے پر کفایت کرتی ہے۔

↑[۱] . یوسف/ ۷۶
↑[۲] . احمد بن حنبل، المسند، ج۱، ص۳۷۸ و ۴۳۴؛ بخاری، صحیح البخاري، ج۳، ص۱۵۱، ج۴، ص۱۸۹، ج۷، ص۱۷۴؛ مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج۷، ص۱۸۵؛ ترمذی، السنن، ج۳، ص۳۳۹ و ۳۷۶، ج۵، ص۳۵۷؛ نسائی، السنن الکبری، ج۳، ص۴۹۴؛ بیہقی، السنن الکبری، ج۱۰، ص۱۲۲
↑[۳] . طیالسی، المسند، ص۹۰ و ۲۷۰؛ احمد بن حنبل، المسند، ج۳، ص۱۳۰ و ۱۴۳، ج۴، ص۳۱۹؛ ترمذی، السنن، ج۴، ص۲۳۹؛ ابو یعلی، المسند، ج۶، ص۱۹۰ و ۳۸۰؛ ابن حبان، صحیح ابن حبان، ج۱۶، ص۲۱۰؛ رامہرمزی، الحدّ الفاصل، ص۳۴۶؛ طبرانی، المعجم الأوسط، ج۴، ص۷۸ و ۲۳۱؛ شاموخی، أحادیث الشاموخي عن شیوخہ، ص۳۰؛ ابن سلامۃ، مسند الشہاب، ج۲، ص۲۷۶ و ۲۷۷؛ ھیثمی، موارد الظمآن، ج۷، ص۲۹۵
↑[۴] . اہل حدیث کی توجّہ ان دونوں روایتوں کے حملے کی طرف مبذول کرائ جاۓ، دیکھۓ: ابن قتیبہ، تأویل مختلف الحدیث، ص۱۰۷؛ ابن عبد البر، التمہید، ج۲۰، ص۲۵۰ تا ۲۵۴؛ ابن حجر، فتح الباري، ج۷، ص۵؛ ابو ریّہ، أضواء علی السّنّۃ المحمّدیّۃ، ص۲۴۳۔
↑[۵] . یونس/ ۳۶