جمعرات ۲۵ اپریل ۲۰۲۴ برابر ۱۶ شوّال ۱۴۴۵ ہجری قمری ہے
منصور ہاشمی خراسانی
حضرت علّامہ منصور ہاشمی خراسانی حفظہ اللہ تعالی کے دفتر کے معلوماتی مرکز (ویب سایٹ) کا اردو زبان میں آغاز ہو گیا ہے۔
loading

اوردوسری طرف اہل حدیث کی روایت اس مضمون کے ساتھ: «مَثَلُ أُمَّتِي مَثَلُ الْمَطَرِ لَا يُدْرَى أَوَّلُهَا خَيْرٌ أَوْ آخِرُهَا»[1] کے مطابق کہ جو سابقہ مسلمانوں کی آئندہ مسلمانوں پر بر تری کو بے اعتبار بناتی ہے، تنازعہ ہوتا ہے اور اسکے نتیجے میں ساقط ہو جاتی ہے[2]۔

اس کے باوجود حق یہ ہے کہ پہلے والے مسلمانوں کا علم شریعت کے بارے میں اسی وقت ثابت ہوگا جب وہ آنے والے مسلمانوں کیلۓ قابل پیروی ہو جو صحیح و کامل ان کے توسط سے منتقل ہوا ہو۔ حالانکہ قطعی طور پر وہ علم وجود نہیں رکھتا ہے اور صرف حسن ظن موجود اور ظن و گمان کو ایک اہم دلیل نہیں مانا جاتا؛ جیسا کہ اللہ نے ارشاد فرمایا ہے: ﴿إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ۚ[3]؛ «جب کہ گمان حق کے بارے میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا ہے»؛ کیونکہ پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے بعد پہلے والے مسلمانوں کے درمیان فکری و سیاسی اختلاف بہت ہیں اور مسلمانوں پر جابر حاکم کا تسلط ہونا، صحیح و کامل علم کو چھپا نے کے لئے بہت زیادہ دعوے ان کے توسط سے پائے جاتے ہیں۔ بلکہ بسا اوقات اس کا اظہار کرنا بھی مسلمانوں کی جان و مال عزت آبرو پر خطرہ تھا۔ اس کے علاوہ کچھ لوگ حتمی طور پر دوسری اور تیسری نسل کے لوگ دنیا کی خواہش اوراپنے نفس کی پیروی کرتے تھے تبعا اپنے علم کو جان بوجھ کر چھپا تے تھے۔ چنانچہ بہت زیادہ متضاد روایتیں نقل ہوئی ہیں۔ لہٰذا اگر چہ شریعت کے بارے میں اسلام کے پہلے والے مسلمانوں کا عالم ترہونا مسلّم ہوگا لیکن ان کے توسط سے صحیح اور کامل علم کا اظہار آئندہ مسلمانوں کے لئے مسلّم نہیں ہے۔ اور یہی دلیل آنے والے مسلمانوں کے لئے ان کی پیروی نہ کرنے پر کفایت کرتی ہے۔

ہاں، ممکن ہے علم اور اسے سیکھنے کو چھپانا جھوٹ اور چاپلوسی گذشتگان سے زیادہ آنے والوں میں ہو، جیسا کہ اللہ نے ارشاد فرمایا ہے: ﴿فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[4]؛ «پھر ان کے بعد ان کلی جگہ پر وہ لوگ آئے جنھوں نے نماز کو بر باد کیا اور خواہشات کا اتباع کیا پس یہ عنقریب اپنی گمراہی سے جا ملیں گے» لیکن یہ بات واضح ہے کہ گذشتگان کی پیروی آنے والوں کےلئے کرنا کافی نہیں ہے؛ کیونکہ کسی کا قول وفعل ایک دوسرے کی نسبت درست ہونا، دوسروں کے قول و فعل سے قطعی نظر اپنی ذات میں درست نہ ہوگا قابل پیروی نہیں ہے؛ اس توجہ کے ساتھ کہ ممکن ہے کہ غلط قول وفعل دوسرے کے نادرست قول و فعل کے قیاس میں ہو درست تر شمار کیا جاتاہے۔ اور اپنی ہی ذات میں نادرستی کے لحاظ سے قابل پیروی نہیں ہے، جیسے جھوٹ بولنا جو دوسرے جھوٹ بولنے والے کے مقابلے میں جھوٹ کم یا بہت چھوٹا بولتا ہے لیکن دوسرے جھوٹے کی پیروی اس پر واجب نہیں ہے کیونکہ پیروری کرنا تو سچ والوں کی ہے، جیسا اللہ نے ارشاد فرمایا ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ[5]؛ «جو لوگ ایمان لیکر آئے ہو! تقوۓ الٰہی اختیار کرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ»؛ جیسا کہ لوگوں میں سے کوئ نہیں ہے جب تک کہ اسے کسی اور سے زیادہ درستکار نہ سمجھا جاۓ، جب کہ ان میں سے کسی پر بھی اس معاملے میں دوسرے کی پیروی کرنا لازم نہیں ہے۔

↑[۱] . طیالسی، المسند، ص۹۰ و ۲۷۰؛ احمد بن حنبل، المسند، ج۳، ص۱۳۰ و ۱۴۳، ج۴، ص۳۱۹؛ ترمذی، السنن، ج۴، ص۲۳۹؛ ابو یعلی، المسند، ج۶، ص۱۹۰ و ۳۸۰؛ ابن حبان، صحیح ابن حبان، ج۱۶، ص۲۱۰؛ رامہرمزی، الحدّ الفاصل، ص۳۴۶؛ طبرانی، المعجم الأوسط، ج۴، ص۷۸ و ۲۳۱؛ شاموخی، أحادیث الشاموخي عن شیوخہ، ص۳۰؛ ابن سلامۃ، مسند الشہاب، ج۲، ص۲۷۶ و ۲۷۷؛ ھیثمی، موارد الظمآن، ج۷، ص۲۹۵
↑[۲] . اہل حدیث کی توجّہ ان دونوں روایتوں کے حملے کی طرف مبذول کرائ جاۓ، دیکھۓ: ابن قتیبہ، تأویل مختلف الحدیث، ص۱۰۷؛ ابن عبد البر، التمہید، ج۲۰، ص۲۵۰ تا ۲۵۴؛ ابن حجر، فتح الباري، ج۷، ص۵؛ ابو ریّہ، أضواء علی السّنّۃ المحمّدیّۃ، ص۲۴۳.
↑[۳] . یونس/ ۳۶
↑[۴] . مریم/ ۵۹
↑[۵] . التوبہ/ ۱۱۹