جمعرات ۲۸ مارچ ۲۰۲۴ برابر ۱۷ رمضان ۱۴۴۵ ہجری قمری ہے
منصور ہاشمی خراسانی
حضرت علّامہ منصور ہاشمی خراسانی حفظہ اللہ تعالی کے دفتر کے معلوماتی مرکز (ویب سایٹ) کا اردو زبان میں آغاز ہو گیا ہے۔
loading

اور یہ بھی ارشاد فرمایا: ﴿وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً قَالُوا وَجَدْنَا عَلَيْهَا آبَاءَنَا وَاللَّهُ أَمَرَنَا بِهَا ۗ قُلْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ ۖ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ[1]؛ «اور جب یہ لوگ کوئی برا کام کرتے ہیں، تو کہتے ہیں: کہ ہم نے آباء و اجداد کو اسی طریقے پر پایا ہے اللہ نے یہی حکم دیا ہے! آپ فرما دیجئے خدا بری بات کا حکم دے ہی نہیں سکتا، کیا تم خدا کے خلاف وہ کہہ رہے جو تم جانتے بھی نہیں ہو؟!»۔ لہٰذا، یہ بات واضح ہے کہ پہلے والوں کی پیروی کرنے کا عقیدہ اسلام میں نہیں ہے، یہ مشرکوں کے عقائد میں سے ہے اسی وجہ سے یہ مانع شناخت ہے یہ لوگ حق کو باطل سمجھتے ہیں اگر اپنے آباء و اجداد کے قول و فعل کے خلاف ہو؛ ان کے خیال میں اگر کوئی چیز حق تھی تو گذشتگان سے پوشیدہ نہیں رہی ہوگی، اور ہر وہ چیز جوگذشتگان سے پوشیدہ رہی اب وہ بدعت ہو گی؛ چنانچہ پرور دگار عالم نے ان کو گفتگو کی خبر دی اور فرمایا ہے: ﴿مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي الْمِلَّةِ الْـآخِرَةِ إِنْ هَذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ[2]؛ «ہم نے تو اگے دور کی امتوں میں یہ باتیں نہیں سنی ہیں، اور یہ کوئی خود ساختہ بات معلوم ہوتی ہے»!

[گذشتگان کی پیروی ہی لازم نہیں آتی]

یہاں پر یہ بات واضع ہو جاتی ہے کہ سلفیوں کا اپنے گذشتگان کی پیروی کرنے کا عقیدہ نادرست ہے؛ چونکہ اگر گذشتگان کی پیروی، کرنے کا اعتبار عقل تھی، تو عقل آنے والوں کے پاس بھی موجود ہے تو عقل کے ہوتے ہوئے گذشتگان کی پیروی بے معنی ہے اور اگر گذشتگان کی پیروی کا اعتبار شریعت تھی، تو شریعت آنے والوں کے پاس بھی موجود ہے تو شریعت کی پیروی گذشتگان کی پیروی سے زیادہ بہتر ہے؛ بلکہ گذشتگان کی پیروی کرنا اس اعتبار سے کہ یہ عقل و شریعت کی پیروی ہے، ایک متناقٖض اور بے معنی امر ہے۔ اس لئے کہ گذشتگان، اور عقل و شریعت کی پیروی کی صورت میں صرف عقل و شریعت کی پیروی ہوگی نہ کہ گذشتگان کی، یہ دونوں کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے، اگر فرض کر لیا جائے کہ گذشتگان نے بھی عقل و شریعت کی پیروی کی تھی نہ کہ اپنے گذشتگان کی، لہٰذا گذشتگان کی پیروی ہی گذشتگان کی پیروی نہ کرنے کا تقاضہ کرتی ہے!

ہاں، اس صورت میں کہ اگر گذشتگان، شریعت کے سر چشمے سے بہت نزدیک تھے تو لازماً وہ شریعت سے زیادہ آگاہ رہے ہونگے تو ان کی پیروی صرف اس امید پر کرنا کہ وہ شریعت کی پیروی سے بہت نزدیک تھے قابل اعتراض ہے، لیکن یہ صورت بھی قطعی و یقینی نہیں معلوم ہوتی، اس لئے کہ صرف شریعت سے انکا زیادہ نزدیک ہونا شریعت سے زیادہ آگاہی کا سبب نہیں بنتا؛ بلکہ اس کے خلاف بھی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ عام طور سے کسی نئی چیز کو پہچاننا پرانی چیز کو پہچاننے سے زیادہ مشکل ہے، اس لئے کہ جو پرانی چیز ہے اس کو پہچاننے میں وقت صرف ہو چکا ہے۔ اسے حاصل کرنے کے لئے تجربہ بھی ہو چکا اور اس کے بار ے میں کم و بیش معلومات فراہم ہے لیکن جو جدید شئی ہے وہ بغیر اپنے حادث کے پہچانی بھی نہیں جا سکتی ہے اور زمانے کے گذرنے کے ساتھ ساتھ ان کو پہچاننا آسان ہو جاتا ہے اس بناء پر وہ تمام موضوعات جو کسی خاص زمانے کے لئے نہیں ہیں، ان سے متعلق آنے والوں کا علم گزر جانے والوں کے علم سے زیادہ ہوتاہے اور یہ ایک قابل قبول حقیقت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آنے والے لوگوں کے پاس وہ علم بھی مو جود ہے جو دور حاضر کا حاصل کردہ اور جو گذر چکے ہیں ان کا بھی علم ہے اور یہی علمی ظرفیت آنے والے لوگوں کے لئے زیادہ شمار کی جاتی ہے۔ اس لئے وہ گذشتگان کے تجربات سے بھی واقف ہیں اور انھیں تجربات کو اپنے تجربات پر اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ اورآنے والوں کے لئے نئے نئے تجربات پیدا کرتے رہتے ہیں۔

↑[۱] . الاعراف/ ۲۸
↑[۲] . ص/ ۷