اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا فلسفی نہیں ہے تو اس کی کتاب بھی فلسفی کتاب نہیں ہے۔ اس بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ دقت نظر عقلی تمام موضوعات میں مہم ہیں جیسے عقائد، حتی کہ فلسفی بھی جو قبول نہیں کرتے ممکن اور جائز ہے۔ جیسا کہ میں خود فلسفے کو پسند نہیں کرتا ہوں کیونکہ چاہے جتنا اس کے نتائج صحیح ہوں مگر ان کے طریقے اور عقلاء کے طریقے میں فرق ہے جو ذہنی تنازع کا باعث بنتا ہے۔ میں اسی لئے فلسفے کو غیر عقلاء کا کام جانتا ہوں۔ چونکہ میری فلسفے کی تعریف کی بنیاد پر فلسفہ یعنی ان چیزوں کے بارے میں غور وفکر کرنا جن کے بارے میں عقلاء عام طور پر فکر نہیں کرتے۔ جیسے اصالت وجود۔ اور ماہیت، اور احکام ماہیت، احکام جوہر، اور اعراض، اور ان چیزوں کے بارے میں غور فکر جن چیزوں کے بارے میں عادتاً عقلاء کرتے ہیں تو یہ غور و فکر عقلی ہوگا فلسفی نہیں بلکہ اسے «تعقل» کہا جائے گا۔ اس بنیاد پر فلسفے کے طریقے سے زیادہ ان کو موضوع ہی فلسفے کو تعقل سے جدا کرتا ہے۔
حسن و قبح کی بنیاد
ہم نے جو کچھ بیان کیا اس سے یہ بات واضح ہے کہ حسن و قبح کے سر چشمے کے بارے میں فرقہ اشاعرہ اور عدلیہ کا ہزار سالہ نزاع کوئی دلیل نہیں رکھتا بلکہ لفظی نزاع ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اشاعرہ کے نظر یے کے مطابق اچھائ اور بدی کا سر چشمہ خداوند عالم کے امر ونہی پر ہے۔ خداوند عالم کے امرو نہی سے پہلے اچھائی اور برائی کا وجود نہیں تھا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جس چیز کو اللہ نے خوب کہا وہ اچھی ہے، اور جس چیز کوبرا بتایا وہ بری ہے۔ یہی وہ سر چشمہ ہے جسے «حسن و قبح شرعی» کہتے ہیں۔
اور فرقہ عدلیہ کے نظر ئے کے مطابق اچھائی اور برائی کا سر چشمہ خداوند عالم کی امرو نہی نہیں ہے۔ خداوند عالم کی امر و نہی کا سر چشمہ خوب وبد ہے۔ اور اچھائ اور برائ کا سر چشمہ عقل ہے شریعت نہیں ہے۔ یہ اس معنی میں ہے کہ اللہ نے جس کام کو بجالانے کا حکم دیا ہے وہ خوب ہے اور جس کام سے روکا وہ برا ہے۔ خوبی اور بدی یہ ایسے عنوان حقیقی ہیں جو شریعت کے اعتبار سے وجود میں نہیں آئے۔ یہی وہ سر چشمہ ہے جسے «حسن و قبح عقلی» کہتے ہیں۔ جبکہ ہم نے کہا کہ عقل و شریعت کا تعلق ایک مبداء سے ہے اور ایک ہی مرجع کی طرف پلٹتے ہیں اور جس کی طرف پلٹتے ہیں وہی خدا ہے کہ جس کے تشریعی اور تکوینی افعال میں اختلاف نہیں ہے۔ اس بنیاد پر حسن و قبح کا سر چشمہ خداوند عالم کی امرو نہی ہے۔ اس کے علاوہ خداوند عالم کی امرونہی دوصورتوں میں واقع ہوئی ہے۔ ایک تشریعی امرونہی جو شریعت میں روشن ہے اور دوسرے تکوینی امرو نہی جو عقل میں روشن ہے۔ ایک امر کے سلسلے میں خدا کا امر بھی ہو اور نہیں بھی یہ محال ہے۔ یعنی دو حکم کا اجتماع ایک ساتھ محال ہے۔ شریعت اور عقل کا تضاد ممکن نہیں ہے۔ اس تمام گفتگو کا نتیجہ یہ حاصل ہوا کہ حسن و قبح کا سر چشمہ خداوند متعال ہے۔