منگل ۱۵ جولائ ۲۰۲۵ برابر ۱۹ محرّم ۱۴۴۷ ہجری قمری ہے
منصور ہاشمی خراسانی
حضرت علّامہ منصور ہاشمی خراسانی حفظہ اللہ تعالی کے دفتر کے معلوماتی مرکز (ویب سایٹ) کا اردو زبان میں آغاز ہو گیا ہے۔
loading

بہر حال وہ لوگ جو عقل کی حجّیت کا انکار کرتے ہیں ان کو اپنا دعوی ثابت کرنا محال ہے کیونکہ کسی بھی دعوے کا اثبات عقل کی حجّیت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا وہ لوگ بغیر خود جانے ہوئے عقل سے استدلال کر رہے ہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ عقل محدود ہے اور محدود سے استدلال جائز نہیں ہے۔ یہ بات خود ہی عقلی ہے تو اگر عقل سے استدلال جائز نہیں تو یہ استدلال بھی جائز نہیں ہے۔

نتیجہ یہ ہے کہ عقل کے خلاف تبلیغ کرنا شیطان کا کام ہے۔ اس طرح دنیا میں جہالت کے لئے زمین ہموار ہوتی ہے اور ہر وہ انسان کہ جو عقل کے خلاف تبلیغ کرتا ہے وہ شیطان کا سپاہی ہے جو چاہتے نہ چاہتے بھی اس کی خدمت میں رہتا ہے۔ اور خدا کے مقابلے میں میدان میں کمر بستہ ہے۔

عقل اور فلسفلہ کا فرق

یہاں جو نکتہ قابل ذکر ہے، وہ یہ ہے کہ کچھ کہتے ہیں کہ عقل سے مراد فلسفہ ہے۔ اسی وجہ سے عقل کی مخالفت کرتے ہیں جبکہ یہ درست نہیں ہے۔ کیونکہ عقل خدا داد طاقت ہے جو مفاہیم اور مصادیق کو صحیح درک کرنے کے لئے عطا کی گئی ہے جو تمام انسانوں کے درمیان مشترک ہے۔ اور فلسفیوں سے مختص نہیں ہے۔ حالانکہ فلسفہ ایک خاص علم کا نام ہے، جیسے وہ علوم انسانی جو یونان کے اندر وجود میں آئے، اور وہی علوم عباسیوں کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان بھی وارد ہوئے اور دوست اور دشمن پیدا ہوئے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ عقل فلسفے کی پیدائش سے پہلے وجود میں آئی اور فلسفہ تو ایک جدید علم ہے جو عقل پر مبنی ہے۔ جس طرح سے دوسرے علوم عقل پر مبنی ہیں جیسے، حساب ہندسہ، طب و غیرہ تو ہر علم نے کسی نہ کسی رخ سے عقل سے کام لیا ہے۔ اسی بنیاد پر ہر فلسفی عاقل ہے لیکن ہر عاقل فلسفی نہیں اور وہ چیز جومعیار شناخت ہے وہ عقل ہے فلسفہ نہیں۔ دوسرے میں عقل سے مراد جہاں عقل شناخت کا معیار شمار کی جاتی ہے وہ تمام عقلاء کی عقل ہے کسی ایک فلسفی کی عقل نہیں ہے اور یہ بات واضح ہے کہ عقلاء کے تعقل و تفکر اور فلاسفہ کے تعقل و تفکر کے درمیان فرق ہے۔ اس لئے فلسفے کی مخالفت، عقل کی مخالفت نہیں ہونی چاہئے کیونکہ عقل فلسفے کے برابر نہیں ہے اور عقل کا لازمہ فلسفے کا لازمہ نہیں ہے۔ اگر چہ عقل ان موضوعات کے بارے میں غور وفکر کرتی ہے جو ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ غور و فکر فلسفی جیسا ہے لیکن اس وقت نظریہ کو اصطلاحی معنی میں نہیں سمجھنا چاہئے۔ کیونکہ اس کا منشا صرف عقلاء کی وقتِ نظر ہے اور تمام موضوعات میں مہم تر ہے جیسا کہ خداوند عالم قرآن مجید میں اپنی وحدانیت کے اثبات کے سلسلے ارشاد فرماتا ہے: ﴿لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا[1]؛ «اگر زمین و آسمان کے درمیان اللہ کے علاوہ کوئی خدا ہوتا تو زمین و آسمان برباد ہو جاتے» اس کا مطلب یہ ہوا کہ متعدد خدا تضاد کی جڑہیں اور تضاد بربادی کی جڑ ہے حالانکہ زمین و آسمان نابود نہیں ہوئے ہیں۔ پس اس دنیا میں اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں ہے تو پھر واضح ہو گیا کہ عقلاء کی علمی دقت نظر عقلی ہے تو جب دقت نظر عقلی ہے تو فلسفہ نہیں ہو سکتا ہے۔

↑[۱] . الانبیاء/ ۲۲