شریعت انسان کے لئے مفید ہے لیکن عقل کے ذریعے ہی پہچانی جاتی ہے جو صرف عقلمندوں سے ہی خطاب کرتی ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ذکر ہوا ہے: ﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾؛ «صاحبان عقل اللہ سے ڈرتے رہو شاید کہ تم اس طرح کا میاب ہو جاؤ» اللہ ارشاد فرماتا ہے: ﴿إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَـآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ﴾؛ «بیشک زمین و آسمان کی خلقت اور لیل و نہار کی آمدو رفت میں صاحبان عقل کے لئے قدرت کی نشانیاں ہیں» ایک اورمقام پر ارشاد ہوتا ہے: ﴿إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ﴾؛ «بیشک اس بات کو صرف صاحبان عقل ہی سمجھ سکتے ہیں»۔
عقل کا ایک ہونا
عقل ایک نایاب گوہر ہے جو فرزندان آدم کے درمیان مشترک ہے اور ذاتی اختیار اور اجتماعی ذمہ داری اور انسانوں کیلئے ایک دوسرے سے ملنے کی کڑی سمجھی جاتی ہے۔ چونکہ اس کا خالق ایک ہے تو اس کے مفاہیم بھی ایک ہونگے اور اس کے افراد کے درمیان کوئی اختلاف نہیں پایا جائے گا۔ عقل کا خالق پروردگار عالم ہے جو کہ خود محض عقل اور عقلمند وں کا سردار ہے جس کے افعال میں کوئی تضاد نہیں ہوتا۔ اس لئے دنیا کے تمام عقلمند کسی بھی نسل، زبان اور کلچر کے ہوں نظریوں میں عقل کو مستند مانتے ہیں اور ان میں سے دو آدمی بھی آپس میں اختلاف نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر سبھی اس بات پر متفق ہیں جو چیز محسوس کی جاتی ہے اس کا وجود ہے اور کل، جز سے بڑا ہے اور دو متضاد چیزوں کا ایک جگہ پر جمع ہونا محال ہے اور حادث اپنے محدث کا محتاج ہے۔ خبر متواتر صحیح ہے، ظلم برا ہے، عدل اچھا ہے، یا اسی کے مانند دوسری چیزیں۔ یہ اس معنی میں ہے کہ عقل کا وجود ایک ہے جو معیار شناخت کی صلاحیت رکھتی ہے اسی کے ذریعے عاقلوں کا اختلاف اتحاد میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
[عقل کے مراتب اور اس کے ادراکات]
عقل کے لئے چاہے جتنے متعدّد مراتب اور مختلف اقدار ہوں لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس کے مختلف مراتب واقدار اس کی وحدت کو بہ عنوان سر چشمۂ شناخت کوئی نقصان نہیں پہنچاتے۔ جیسے نور جس میں زیادتی اور کمی پائی جاتی ہے لیکن نور اپنے تمام مراحل میں قابل مشاہدہ ہے اسی طرح عقل بھی ایک سوچنے سمجھنے کی طاقت ہے۔ اگر چہ بعض انسان، بعض انسانوں سے عقل کے لحاظ سے جدا ہیں لیکن سارے انسانوں میں کافی مقدار میں عقل پائی جاتی ہے۔ یہی اس کی وحدت معیار شناخت کے عنوان کے طور پر کافی ہے۔ کیونکہ پروردگار عالم عادل ہے۔ اس نے ہر انسان کو عقل جیسی عظیم نعمت سے نوازا ہے۔ یہی وہ فضل ہے جو اس نے اپنے بندوں کو عطا کیا ہے تاکہ کسی انسان پر ظلم نہ ہو جیسا کہ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ﴾؛ «اور خدا جس کے لئے چاہتا ہے اضافہ بھی کر دیتا ہے کہ وہ صاحب وسعت بھی ہے اور علیم و دانا بھی ہے» جیسا کہ بعض انسان کی عقل دوسرے بعض انسانوں کی عقل کو کامل اور مکمل بناتی ہے اس لئے وہ ایک دوسرے کے عمل میں شریک ہوتے ہیں۔ غور و فکر کرنے کے بعد ایک اجتماعی عقل پیدا ہوتی ہے جو انفرادی عقل کا جبران کرتی ہے جیسا کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا﴾؛ «بعض کو بعض سے اونچا بنا دیا تاکہ ایک دوسرے سے کام لے سکے»۔