منگل ۲۳ ستمبر ۲۰۲۵ برابر ۱ ربیع الثّانی ۱۴۴۷ ہجری قمری ہے
منصور ہاشمی خراسانی
حضرت علّامہ منصور ہاشمی خراسانی حفظہ اللہ تعالی کے دفتر کے معلوماتی مرکز (ویب سایٹ) کا اردو زبان میں آغاز ہو گیا ہے۔
loading

عقل؛ معیار شناخت ہے

انسان ایک ایسا حیوان ہے جو تمام مخلوقات سے الگ ہے۔ اس کے الگ ہونے کی وجہ ایک ایسی طاقت ہے جو اس کے اندر چھپی ہوئی ہے۔ وہ انسان کو تمام حیوانوں کے مقابلے میں فائدہ اور نقصان کی سمجھ پر قادر بناتی ہے۔ اسی کے ذریعے انسان اپنے فائدے کے لئے اپنے آپ کو باقی رکھے گا اور نقصان سے دوری اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو ختم ہونے سے بچائے گا۔ اسی طاقت کو «عقل» کہتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان کی برتری تمام موجودات پر اس کے جسم کی وجہ سے نہیں ہے۔ کیونکہ انسان کا جسم دوسرے حیوانوں کے مقابلے میں کمزور ہے۔ انسان کی روح بھی اس کی طاقت کے لئے نہیں پہچانی جاتی ہے کیونکہ روح اس کے جسم کی رشد و حرکت کی علامت تو ہے لیکن روح تمام حیوانوں کے ساتھ مشترک ہے۔ اس روح کی وجہ سے انسان کو سارے حیوانات سے برتر قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ سارے حیوان بھی انسان کی طرح حرکت کرتے ہیں اور رشد پاتے ہیں۔ صرف ایک چیز ایسی ہے جو انسان کے اندر پائی جاتی ہے، وہ دوسرے حیوانوں میں نہیں پائی جاتی۔ وہ «عقل» ہے، جو کلی مفاہیم کو سمجھنے، اور ان کو جزئی مصادیق پر تطبیق کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اسی کوشش کو «فکر» کہتے ہیں یعنی معلومات کے ذریعے مجہولات تک پہنچنا۔ شاید یہ طاقت حیوانوں میں بھی پائی جاتی ہے لیکن انسان کے اندر زیادہ پائی جاتی ہے۔ اسی دلیل کی بنیاد پر اسے تمام حیوانات پر فضلیت حاصل ہے۔ اگر یہی صلاحیت انسان سے زیادہ کسی دوسرے حیوان میں پائی جاتی تو وہ انسانوں پر مسلط ہوتا اور وہی افضل بھی ہوتا اور انسان کو اپنی خدمت پر مامور کرتا۔ جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ انسانوں کا تسلط حیوانات پر قابل مشاہدہ ہے۔ یہ برتری صرف عقل کی وجہ سے ہے کسی اور امتیاز کی وجہ سے نہیں ہے۔ اسی لئے جو انسان عقل نہیں رکھتا اسے دیوانہ سمجھا جاتا ہے۔ تو پھر وہ دوسرے حیوانات پربھی برتری نہیں رکھ سکتا۔ بلکہ ان سے پست تر ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ خود قرآن نے فرمایا ہے: ﴿أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ[1]؛ «وہ چوپایوں کے مانند ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں اور وہ بے خبر ہیں»۔

اس حقیقت کو جاننے کے بعد کہ عقل انسان کی معیار شناخت ہے اور کوئی دوسری چیز سمجھنے کی طاقت اس کے پاس نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں، یوں کہا جائے کہ عقل کے مقابلے میں معیار شناخت کے لئے کوئی دوسری چیز نہیں قرار دی جا سکتی ہے۔ اس سے بے نیاز ہونا بھی ممکن نہیں ہے۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ انسان کی شناخت عقل کے ذریعے ہی انجام پاتی ہے۔ اس کی حقیقت پر انسان کی پسند و نا پسند کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ کیونکہ یہ حقیقت ذات انسان میں اور خلقت پروردگار میں موجود ہے۔ لہٰذا اسے تغیر پذیر ہونا انسان کے ذریعے ممکن نہیں ہے۔ اس بنیاد پر عقل بنیادی اور ابتدائی سر چشمۂ شناخت ہے۔ اور ہر وہ شناخت جو براہ راست یا بلا واسطہ طریقے سے عقل پر مشتمل نہیں ہوتی وہ بے معنی ہوتی ہے۔ اگر کسی شناخت کے دوسرے سر چشمے ہوں تو وہ بھی عقل کی طرف ہی پلٹتے ہیں کیونکہ عقل کے بغیر شناخت نہیں ہو سکتی۔ جس طرح سے شریعت عقل والوں کے لئے ہے ایسے ہی شناخت بھی عقل والوں کے لئے ہے۔

↑[۱] . الاعراف/ ۱۷۹