ہفتہ ۲۷ اپریل ۲۰۲۴ برابر ۱۸ شوّال ۱۴۴۵ ہجری قمری ہے
منصور ہاشمی خراسانی
حضرت علّامہ منصور ہاشمی خراسانی حفظہ اللہ تعالی کے دفتر کے معلوماتی مرکز (ویب سایٹ) کا اردو زبان میں آغاز ہو گیا ہے۔
loading

جیسا کہ نمونہ کے طور پر اپنے ماضی سے پہلے مواطن میں اور اس طرح مختلف جگہ فرمایا ہے: «أَيُّهَا النَّاسُ! إِنِّي أُوْشَكُ أَنْ أُدْعَى فَأُجِيبَ، وَإِنِّي مَسْؤُولٌ وَأَنْتُمْ مَسْؤُولُونَ، فَإِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ خَلِيفَتَيْنِ: كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي، إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي، فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا، وَإِنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ، نَبَّأَنِي بِذَلِكَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ»؛ «اے لوگوں! میں نزدیک کیا گیا ہوں کہ میں پکاروں، پس اجابت کروں میں بھی مسؤل ہوں، تم بھی، مسؤل ہو؛ پس میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑ کے جارہا ہوں: ایک میری عترت یعنی میرے اہل بیت اور ایک قرآن مجید اگر تم ان دونوں سے متمسک رہوگے، تو کبھی میرے بعد گمراہ نہ ہوگے پس تم دیکھو میرے بعد ان دونوں کے ساتھ کیا کروگے اور یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے حتیٰ کے حوض پر دونوں میرے پاس آئیں گے، مجھے اس نے خبر دی ہے جو باریک بین اور آگاہ ہے»۔ یہ بہت اہم اور بنیادی حدیث ہے جو «حدیث ثقلین» کے نام سے مشہور ہے اور یہ قرآن و خلافت اور تبعاً اہل بیت کی حاکمیت کے ساتھ آنحضرت کے بعد خدا کی جانب سے اہل بیت سے متمسّک ہونے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے آنحضرت کے تیس اصحاب سے زیادہ کے وسیلے سے جیسے سلمان فارسی[1]، ابوذر غفّاری[2]، ابو سعید خدری[3]، زید بن أرقم[4]، جابر بن عبد اللہ انصاری[5]، حذیفہ بن اسید[6]، زید بن ثابت[7]، عبد الرحمٰن بن عوف[8]، سعد بن أبی وقاص[9]، جبیر بن مطعم[10]، امّ سلمہ[11]، ابو رافع[12]،

↑[۱] . ابن عقدہ، الولایۃ، ص۱۹۴
↑[۲] . ترمذی، السنن، ج۵، ص۳۲۷؛ ابن عقدہ، الولایۃ، ص۱۹۳
↑[۳] . ابن جعد، المسند، ص۳۹۷؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۱۹۴؛ احمد بن حنبل، المسند، ج۳، ص۱۴، ۱۷ اور ۵۹؛ ابن ابی عاصم، السّنّۃ، ص۶۲۹؛ ابو یعلی، المسند، ج۲، ص۲۹۷
↑[۴] . احمد بن حنبل، المسند، ج۴، ص۳۶۶؛ دارمی، السنن، ج۲، ص۴۳۱؛ مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج۷، ص۱۲۲؛ نسائی، خصائص أمیر المؤمنین عليّ بن أبي طالب، ص۹۳؛ نسائی، فضائل الصّحابۃ، ص۱۵؛ ابن خزیمۃ، صحیح ابن خزیمۃ، ج۴، ص۶۳
↑[۵] . ترمذی، السنن، ج۵، ص۳۲۷؛ طبرانی، المعجم الأوسط، ج۵، ص۸۹
↑[۶] . ابن مخلد، ما روي في الحوض والکوثر، ص۸۸؛ ترمذی، السنن، ج۵، ص۳۲۷؛ طبرانی، المعجم الکبیر، ج۳، ص۶۷ اور ۱۸۰؛ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج۴۲، ص۲۱۹؛ ہیثمی، مجمع الزوائد، ج۱۰، ص۳۶۳
↑[۷] . ابن ابی شیبہ، المصنّف، ج۷، ص۴۱۸؛ احمد بن حنبل، المسند، ج۵، ص۱۸۲ اور ۱۸۹؛ عبد بن حمید، المنتخب من مسند عبد بن حمید، ص۱۰۸؛ ابن مخلد، ما روي في الحوض والکوثر، ص۱۳۷؛ ہیثمی، مجمع الزوائد، ج۱، ص۱۷۰
↑[۸] . ابن ابی شیبہ، المصنّف، ج۷، ص۴۹۸؛ ابو یعلی، المسند، ج۲، ص۱۶۵؛ حاکم نیشاپوری، المستدرک علی الصحیحین، ج۲، ص۱۲۰؛ ہیثمی، مجمع الزوائد، ج۹، ص۱۶۳
↑[۹] . یعقوبی، تاریخ الیعقوبي، ج۲، ص۱۰۹ خطبۃ الوداع کی روایت کے ضمن میں
↑[۱۰] . ابن ابی عاصم، السّنّۃ، ص۶۱۳
↑[۱۱] . ابن عقدہ، الولایۃ، ص۲۴۴
↑[۱۲] . ھمان، ص۲۲۴