سوال لکھنے والا: فاروق ملازھی سوال کی تاریخ: ۲/۱/۲۰۱۵

کیا جناب منصور ہاشمی خراسانی ہم کو گزرے ہوئے لوگوں کی بنسبت زیادہ عالم اور زیادہ فاضل مانتے ہیں؟!

سوال نمبر کا جواب: ۲ سوال کے جواب کی تاریخ: ۲/۱/۲۰۱۵

«ہم» سے آپ کی مراد اگر خود آپ ہیں یا آپ جیسے کوئی خاص افراد ہیں، تو جناب منصور ہاشمی خراسانی آپ کے متعلق نہ تو کوئی اطلاع رکھتے ہیں اور نہ ہی آپ کے متعلق کوئی تبعا فیصلہ اور سلف کی بنسبت آپ زیادہ عالم اور زیادہ فاضل ہیں یا نہیں اس پر بھی جناب کوئی حکم نہیں لگائیں گے، اگر ہم سے آپ کی مراد «آئندہ آنے والے لوگ» ہیں تو پھر جناب منصور ہاشمی خراسانی سلف کے بنسبت آئندہ آنے والے لوگوں کو دلائل عقلیہ و شرعیہ کے مد نظر کہ جنہیں آپ نے «اسلام کی طرف واپسی»[۱] کتاب میں ذکر فرمایا ہے، زیادہ عالم اور زیادہ فاضل ہونے کو «ممکن» جانتے ہیں جناب اس بات کے معتقد ہیں کہ مطلق سلف کا آئندہ آنے والے لوگوں سے مطلق طور پر زیادہ عالم اور زیادہ فاضل ہونا ان لوگوں کے برخلاف کہ جو اسے بدیہی مانتے ہیں، بدیہی نہیں ہے اور یہ بات قطعی طور پر قبول بھی نہیں کی جاتی ہے چونکہ اسلام میں شک اور ظن کا کوئی اعتبار نہیں ہے لہذا اس ظن کی بنا پر کہ سلف آئندہ آنے والے لوگوں سے زیادہ عالم اور فاضل ہیں انکی تقلید، واجب بلکہ جائز نہیں ہوگی۔ بہ ہر حال، واضح ہے کہ سلف مسلمانوں کی پہلی تین نسل کے معنیٰ میں پیغمبروں کی مانند معصوم نہیں تھے کہ جنکا آئندہ آنے والوں کے بنسبت زیادہ عالم اور فاضل ہونا بدیہی ہوگا اور انکی تقلید واجب یا جائز شمار کی جائگی۔

لہذا، جناب منصور ہاشمی خراسانی سلف کو آئندہ آنے والوں کے بنسبت زیادہ عالم ہونے کو ممکن مانتے ہیں لیکن انکے علوم کو آئندہ آنے والوں کی طرف بلکل صحیح اور کامل طور پر منتقل ہونے کو مشکوک اور مردود مانتے ہیں اور آپ کا عقیدہ ہے کہ بہت زیادہ سیاسی اور مذہبی رکاوٹوں کا وجود ان کے لۓ اس علوم میں صحت و کمال کے یقینی ہونے کا کوئی راستہ نہیں چھوڑتا ہے۔ سلفی علوم کے صحت و کمال پر شک اور ظن کے ہونے کی بنا پر انکے علوم کو ہمارے لئے کافی شمار نہیں کیا جائےگا کیونکہ اسلام میں شک اور ظن کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ لہذا اوائل اسلام کے مسلمانوں کا آئندہ آنے والوں کے بنسبت زیادہ فاضل ہونا اسے اجر اخروی کے طور پر قبول کرتے ہیں اور اسے انکی تقلید کے جواز کے لئے دلیل کے طور پر قبول نہیں کرتے ہیں۔

لہذا، سلف کے متعلق جناب کی باتوں کا ما حصل یہ ہے پہلی بات تو یہ کہ سلف کا آئندہ آنے والوں کے بنسبت زیادہ عالم اور فاضل ہونا قطعی نہیں ہے اور یہ بات عقلی اور شرعی طور پر بھی ثابت نہیں ہو سکتی ہے یہ بات صرف اور صرف ایک احتمال ہے، اور یہ احتمال انکی تقلید کے جواز پر بطور دلیل کافی نہیں ہے اور دوسرا اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ سلف، آئندہ آنے والوں سے زیادہ عالم ہیں، تب بھی یہ قطعی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ انکا علم صحیح اور کامل طور پر آئندہ آنے والوں کی طرف منتقل ہوا ہے کہ جس بات پر انکی تقلید جائز اور واجب ہو جائے اور سلف کو آئندہ آنے والوں کی نسبت سے زیادہ فاضل مان بھی لیا جائے تو انکا یہ فضل، آخرت میں انکے زیادہ اجر ہونے کے بنا پر ہوگا کہ جو اب بھی اس دنیا میں انکی تقلید کے جواز پر دلیل کے طور پر کافی نہیں ہے۔

اس لئے، جناب منصور ہاشمی خراسانی کے نظریے کے مطابق، مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ سلف کو چھوڑ کر کتاب خدا اور پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی یقینی سنت پر عمل کریں؛ بالکل اسی طرح جس طرح خود سلف اسی بات کی کوشش کرتے تھے اور وہ اپنے سلف کی اتباع نہیں کیا کرتے تھے اور نہ اپنے سے بعد میں آنے والوں سے یہ کہا کرتے تھے کہ انکی اتباع کی جائے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جو کسی با خبر سے پوشیدہ نہیں ہے۔

خداوند تمام مسلمانوں کو ترک تعصب و تقلید اور خالص اسلام پر الزامات لگانے سے بچنے کی توفیق عنایت فرمائے اور تمام تصرفات سے اس مذھب کو بلند و بالا رکھے۔

↑[۱] . ص۲۸ سے ۳۰ تک