خط کا ترجمہ:

اے لوگوں! اگر سننے والے کان ہیں، تو میری بات سنو؛ کیونکہ میں تم کو ایک مثال دوں گا: یقینا دنیا کی زندگی میں تم جیسا ہر شخص اس بچے کی مانند ہے جس نے اپنی ماں کو بھیڑ میں کھو دیا ہے، اس لیے وہ اسے ڈھونڈنے کی امید میں ہر عورت کے دامن سے لپٹ کر اس کے پیچھے پیچھے کچھ دور بھاگتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس سے محّبت محسوس نہیں کر پاتا اور اسے احساس ہوجاتا ہے کہ وہ اسکی ماں نہیں ہے، تو وہ روتے روتے اسے چھوڑ کر دوسرے کے دامن سے لپٹ جاتا ہے، یہاں تک کہ اندھیری رات آجاتی ہے اور اس رات کی سردی اسے کھا جاتی ہے، جب کہ اس کا کوئی مددگار نہیں ہے! دنیا کی زندگی میں تمہاری بھی یہی مثال رہی ہے کہ تم نے انصاف کی امید میں ہر حکومت سے اپنا دل لگا لیا اور کچھ عرصہ اس حکومت کی پیروی کی، یہاں تک کہ تم نے اس کا ظلم دیکھ لیا اور سمجھ لیا کہ اس میں عدالت نہیں ہے، لہذا تم نے اسے چھوڑ دیا اور تم دوسری حکومت کی طرف متوجہ ہو گئے! چنانچہ عدالت کی تلاش میں تم نے کبھی مشرق کا رخ کیا اور کبھی مغرب کا رخ کیا؛ کبھی تم بائیں طرف بھاگے اور کبھی دائیں طرف؛ کبھی تم زید کی طرف متوجہ ہوئے تو کبھی عمرو کی طرف؛ کبھی تم نے بادشاہت سے دل لگایا تو کبھی جمہوریت سے! جبکہ عدالت نہ مشرق میں تھی نہ مغرب میں؛ نہ یہ بائیں طرف تھی نہ دائیں طرف؛ نہ یہ زید میں تھی نہ عمرو میں؛ یہ نہ بادشاہت میں تھی نہ جمہوریت میں! عدالت صرف خدا کی حکومت میں ہے جو تمہاری قدر اور تمہارے مقام سے باخبر ہے اور اس کے سوا کوئی اس تک نہیں پہنچ سکتا چاہے وہ لاکھ کوشش کرے، سوائے اس کے جس کو اس نے اپنا مہدی بنایا ہو۔ لیکن تم اس کی رحمت سے مایوس اور اس کے مہدی سے بے پرواہ ہو گئے ہو، اس لیے تم نے وہ حکومت جو وہ مہدی کے لئے چاہتا تھا، ایسے لوگوں کے سپرد کر دی ہے جسکے لئے وہ نہیں چاہتا ہے! جیسے حکومت تمہارے باپ دادا کی میراث ہے جسے تم جس سے چاہتے ہو لے لیتے ہو اور جسے چاہتے ہو دے دیتے ہو اور گویا یہ خدا کی نہیں ہے، جیسا کہ اس نے فرمایا ہے: ﴿قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ[۱]؛ «کہو خدایا! تو ہی حکومت کا مالک ہے! تو جسے چاہے حکومت عطا کر دے اور جس سے چاہے تو حکومت چھین لے» اور اس نے وہ حکومت ابراہیم کو دی اور انکی عادل ذریت سے ایک پیمان لیا اور فرمایا: ﴿وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ[۲]؛ «اور جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند کلمات سے آزمایا، تو جب انہوں نے اس کو پورا کیا، تو فرمایا: میں تمہیں لوگوں کا امام بنا رہا ہوں۔ ابراہیم نے کہا: اور میری ذریت؟ تو فرمایا: میرا عہدہ ظالموں تک نہیں پہنچتا» اور ان کی ذریت میں سے عادل وہ ہیں جن کو خدا نے چاہا کہ ان سے ہر قسم کی نجاست کو دور رکھے اور انہیں مکمل پاک رکھے اور وہ کتاب خدا میں اہل بیت محمّد صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم ہیں[۳] یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کا مہدی آل ابراہیم علیہ السلام اور محمّد صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے اہل بیت میں سے ہیں اور جس نے ان کے علاوہ کسی اور کو حاکم منتخب کیا، وہ بہت دور کی گمراہی سے دوچار ہوا۔

تعجب ہے کہ لوگوں نے ہمیشہ کسی کی بیعت کی ہے اور کسی کی ساتھ عقد ولایت پڑھا ہے اور وہ نہیں جانتے ہیں کہ جس کو خدا نے اس کام کے لے ہدایت اور اختیار دیا ہے اس کے سوا کوئی اور اس کو سنبھال نہیں سکتا ہے اور اس کا حق ادا نہیں کر سکتا ہے! انہوں نے عدالت وہاں تلاش کی ہے کہ جہاں عدالت تھی ہی نہیں اور وہ اپنے حکمرانوں سے وہ توقع رکھتے ہیں جو ان کے بس میں تھی ہی نہیں! جو لوگوں کی قدر و منزلت اور انکے مقام سے واقف نہ ہو وہ لوگوں میں عدل کیسے کر سکتا ہے، بلکہ وہ تو اپنی ہی قدر و منزلت سے آگاہ نہیں ہے اور اپنے مقام سے باہر نکل چکا ہے؟! جو خود ظالم ہو اور دوسرے کی جگہ پر بیٹھا ہو وہ انصاف کیسے کر سکتا ہے اور جو خود فاسد ہو اور جو پوری دنیا کو فساد کی طرف کھینچ لایا ہو وہ اصلاح کیسے کر سکتا ہے؟! کیا لوگوں نے روئے زمین پر سیر نہیں کی اور اپنے آباؤ اجداد کی تاریخ پر تبصرہ نہیں کیا کہ جنہوں نے انصاف کا ایک گھونٹ مانگنے کے لئے ہر حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیکے اور ہر حکمران کے ہاتھ چومے لیکن ان میں سے کسی نے ان کی پیاس پر رحم نہیں کیا اور انہیں انصاف کا ایک گھونٹ نہیں دیا؟! جب کہ خدا کی قسم، وہ اتنے پیاسے تھے کہ وہ ایک گھونٹ سے سیراب نہیں ہو سکتے تھے اور انہیں ایک بہت بڑا دریا ہی سیراب کر سکتا تھا! تو ایسا کیا ہوا کہ روز اوّل سے لے کر آج تک ہمیشہ خدا کے اولیاء ہی محکوم ہوتے رہے اور شیطان کے اولیاء ہمیشہ حاکم رہے! انبیاء کی اولادیں ہمیشہ خانہ نشین رہیں ہیں اور دشمنوں کی اولاد ہمیشہ منبر پر قابض رہی ہیں! ایمان کے امام ہمیشہ بے بس رہے ہیں اور کفر کے امام ہمیشہ طاقتور رہے ہیں! اگر محل تھا تو ہمیشہ ظالموں کے لیے تھا اور اگر جھوپڑی تھی تو ہمیشہ پاکیزہ افراد کے لیے! اگر طاقت تھی تو ہمیشہ مشرکین کے لیے تھی اور اگر ہجرت تھی تو ہمیشہ انبیاء کے لیے تھی! اگر بیعت تھی تو ہمیشہ یزیدیوں کے لئے تھی اور اگر شہادت تھی تو ہمیشہ حسینیوں کے لیے تھی! اگر حکومت تھی تو ہمیشہ گمراہوں کے لیے تھی اور اگر غیبت تھی تو ہمیشہ مہدیوں کے لیے تھی! یہ کیسی رسوائی ہے جس نے تاریخ کو اپنی چپیٹ میں لے رکھا ہے اور یہ کیا جنون ہے جس نے دنیا کو اپنے چنگل میں پھنسا رکھا ہے؟! کیا لوگوں کی آنکھیں نہیں ہیں کہ ان کے حکمران ہمیشہ ظلم کر رہے ہیں اور انصاف نہیں کر رہے ہیں؟! یا انکے پاس سننے کے لئے کان ہی نہیں ہیں کہ ان کے سیاستدان سب جھوٹ بول رہے ہیں اور سچ نہیں کہ رہے ہیں؟! کیا یہ اتنے ہوشیار نہیں ہیں کہ یہ سمجھ سکیں کہ ان کے لیڈر سب کو گمراہ کر رہے ہیں اور راہ نہیں دکھا رہے ہیں؟! تو یہ بدبودار زخم کب تک کھلا رہے گا اور یہ جنون کب تک جاری رہے گا؟! ہاں، اے لوگوں! بتاؤ! تمہیں کب تک شرابی کی طرح دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں ڈگمگانا پڑے گا، یہاں تک کہ تم یہ سمجھ لو کہ تمہارے لیے دائیں بائیں سب برابر ہیں اور دونوں میں سے کسی کے پاس بھی عدالت نہیں ہے؟! مجھے بتاؤ! تمہیں کتنی اور حکومتیں آزمانی چاہئیں اور کتنی اطاعتیں بجا لانی چاہئیں، کہ آخر کار تمہیں معلوم ہو جائے کہ خدا کی حکومت کے علاوہ کوئی اور حکومت تمہیں انصاف نہیں دلا سکتی اور اس کے خلیفہ کی اطاعت کے علاوہ کسی اور کی اطاعت تمہیں ظلم سے نہیں بچا سکتی؟! کیا یہ ہزاروں سال کا تجربہ کافی نہیں ہے؟! کیا یہ بھاری معاوضے کافی نہیں ہیں؟! کیا تم نے نمرود اور فرعون کو نہیں سنا؟! کیا تم نے کسر اور قیصر نہیں دیکھا؟! کیا تم نے خلفاء اور بادشاہوں کو نہیں دیکھا؟! کیا تم نے جمہوریت اور اسلام کو نہیں آزمایا؟! تو کیا تم نے اب تک سبق نہیں سیکھا؟! اس پرانے زخم پر کہاں تک نمک ڈالو گے؟! اور کب تک یہ تاریخی دیوانگی جاری رکھو گے؟!

ہاں، اے ظالم بادشاہوں اور ستمگر امیروں تم نے غلبہ حاصل کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے بے گناہوں کا خون بہایا! ہاں، اے ریاکار فقہاء اور علماء کہ جو خود کو خدا کا مقرّر کردہ اور دنیا کے مسلمانوں کا ولی سمجھتے ہو! ہاں، اے حکومت حاصل کرنے کے لیے مقابلہ کرنے والے لالچی سیاستدانوں! ہاں، اقتدار کے پیچھے بھاگنے والے، اے دھوکے باز سیاسی پارٹیوں! ہاں، اے فرقے اور مجرم گروہ کہ جو زمین پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں! ان مصیبت زدہ لوگوں سے باز آجاؤ اور انکے درمیان سے اور ان کے آقا سے دور ہو جاؤ! کیا ہزاروں سال کا ظلم اور فساد کافی نہیں ہے؟! کیا ایک ذلّت اور رسوائی بھری تاریخ کافی نہیں ہے؟! کیا تم ان ساری شرارتوں اور فتنہ سے تھکے نہیں ہو؟! تو یہ بچکانہ کھیل کب ختم کرو گے؟! تو کب ان تکراری طریقوں سے رکوگے؟!

اب سننے کے لیے کان کھول لو؛ کیونکہ میں قریبی جگہ سے پکارنے والا ہوں اور آواز لگا رہا ہوں: اے لوگوں! کیا اب وقت نہیں آگیا ہے کہ تم اپنے اصل کی طرف لوٹ آو؟! کیا اب وقت نہیں آگیا ہے کہ تم اپنے بابا آدم کے ساتھ کئے گئے خدا کے عہد کو یاد کرو؟! کیا اب وقت نہیں آگیا ہے کہ امانت اسکے مالک کو لوٹا دو اور حکومت کو اسکے اہل کے حوالے کر دو؟! کیا تم کو ان رنگین حکومتوں سے اب بھی امید ہے؟! کیا تم اب بھی یہ سمجھتے ہو کہ زید کے بجائے عمرو بر سر کار آجائے تو معاملات طے پا جائیں گے؟! کتنے زید کی جگہ کتنے عمرو کام پر آئے اور کام پھر بھی درست نہ ہوا؛ کیونکہ کام کا درست ہونا کہیں اور سے تھا اور تمہیں خبر نہیں تھی! تو کب تک اس کی اور اسکی امید لگائے بیٹھے رہو گے اور کب تک اس کا اور اس کا جھنڈا اٹھاؤ گے؟! کب تک اپنے آپ کو ذلیل کرتے رہو گے اور اس کا، اس کا ہاتھ کب تک چومتے رہو گے؟! کب تک یہ جھوٹے وعدے تمہیں کمزور اور لمبے لمبے خواب تمہیں بہلاتے رہیں گے؟! کب تک کولہو کے بیل کی طرح گھومتے رہو گے اور ترقی کا وہم بناتے رہو گے؟!

ہاں، اے لوگوں! یہ کیسے تم نے ہزاروں سال تک ہر نامکّمل جانور کی طرف اپنا منہ موڑا اور کامل انسانوں کو اپنے ہاتھ نہیں دیئے؟! یہ کیسے تم نے ہزاروں سال ہر رطوبت کو چوسا اور میٹھے دریا کو چھوڑ دیا؟! یہ کیسے تم ہزاروں سال ہر سراب کے پیچھے بھاگے مگر صاف پانی کے حصول میں ایک قدم بھی نہیں بڑھایا؟! کیا تم ہوش میں آکر اصل کی طرف نہیں لوٹو گے؟! کیا تم خواب سے بیدار نہیں ہو گے اور کیا یہ ڈراؤنا خواب ختم نہیں ہوگا؟! کیا تم اندھیروں سے نہیں نکلو گے اور کیا اس سیاہ شام کی صبح نہیں ہوگی؟! کیا تم نشے سے باہر نہیں ہو گے اور کیا یہ الجھن دور نہیں ہو گی؟! کیا یہ بند آنکھیں کبھی دھکہ نہیں کھائیں گی اور اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہونگی؟! کیا تم اپنا سر نہیں اٹھاؤ گے اور اپنے آگے اپنے پیروں کے سوا کچھ نہیں دیکھو گے؟! میں دیکھ رہا ہوں کہ تم جہالت کی چھاتی سے دودھ پی کر جبر کی گود میں پروان چڑھے ہو اور تمہارا گوشت اور خون مجھ سے ناواقف ہے! خبردار! تمہاری مجھ سے یہ نا واقفیت تمہیں میری دعوت قبول کرنے سے انکار کرنے پر مجبور نہ کردے؛ کیونکہ میں تمہارا خیرخواہ بھائی ہوں جو تمہیں حق کی طرف بلاتا ہے اور جب میں چیختا ہوں، تم میری آواز سنتے ہو: لوٹ آؤ، اسلام کی طرف لوٹ آؤ؛ کیونکہ تم اس سے بہت دور ہو چکے ہو! تم نے اپنے آپ کو اپنی اصل سے دور کر لیا ہے اور تم اپنے آپ کو بھول گئے ہو! تم نے اپنی عقل کو چھوڑ دیا ہے اور بچّوں اور دیوانوں کی طرح ہو گئے ہو! تم نے خدا کے عہد کی خلاف ورزی کی ہے اور اس کے نبی کی میراث کو ضائع کیا ہے؛ وہی عہد جو اس نے تمہارے باپ ابراہیم سے کیا تھا اور وہی میراث جس کے متعلق فرمایا: «مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي»؛ «جب تک تم اس سے متمسک رہو گے، میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہوگے»! پس تم نے اسے ضائع کر دیا اور پھر اس سے بھٹک گئے، بہت دور گمراہی میں؛ اس حد تک کہ تم پھلوں کے باغ چھوڑ کر کانٹے دار کھیت چر گئے اور میٹھا دریا چھوڑ کر رطوبت چوس گے اور صاف ستھری خوراک کو چھوڑ کر مردار کو اپنے دانتوں میں دبا لیا ہے، تم نے خالص شہد چھوڑ کر حنظل چبا لیا ہے اور خدائی حکومت کو چھوڑ کر تم نے شیطان کی حکومت کے آگے سر تسلیم خم کر لیا ہے! جب کہ پھلوں کا باغ تمہارے لیے خارزار سے بہتر اور میٹھا دریا تمہارے لیے رطوبت سے بہتر ہے، پاکیزہ کھانا تمہارے لیے مردار سے بہتر ہے، خالص شہد تمہارے لیے حنظل سے بہتر ہے اور اللہ کی حکومت تمہارے لیے شیطان کی حکومت سےبہتر ہے!

خبردار! اپنی رہنمائی مہدی کے علاوہ کسی کے سپرد نہ کرو؛ کیونکہ کوئی اندھے سے کبھی راستہ نہیں پوچھتا اور نہ ہی سوراخ دار جہاز کے ساتھ سمندر میں جاتا ہے! تو کیا تم خدا کی حکومت کے علاوہ کوئی حکومت چاہتے ہو؟! جبکہ عدالت صرف خدا کی حکمرانی میں ہے؛ وہ حکومت جو مہدی کے خلیفہ کے ہاتھ سے قائم ہوگی نہ کہ کسی اور کے ذریعے سے اور اس معاملے میں خلفاء، بادشاہ اور فقہاء سب برابر ہیں، مگر یہ کہ ان میں ظلم کے طریقے میں اختلاف ہے اور بعض دوسروں سے زیادہ ظلم کرتے ہیں؛ ان قاتلوں کی طرح جو سب کو قتل کرتے ہیں، اور کچھ کا گلا گھونٹتے ہیں، کچھ کا سر قلم کرتے ہیں اور کچھ کو زہر پلاتے ہیں!

میری بات کان کھول کر سنو؛ کیونکہ تم اس سے بہتر کلام نہیں سنو گے: تمہاری دنیا کی اصلاح سوائے عدل کے نہیں ہو گی، اور تمہاری آخرت عدالت کے بغیر سنبھل نہیں پائے گی اور عدالت مہدی کی حکومت کے بغیر ممکن نہیں ہے اور تمہارے تعاون کے بغیر حکومت مہدی متحقق نہیں ہو سکتی، لیکن تم میں سے اکثر یہ نہیں جانتے!

خط کی تفصیل:

اے خدا کے بندے! اگر تمہارے دل کی آنکھیں اندھی نہیں ہیں تو اس ہدایت کن نورانی خط پر غور کرو، تاکہ تم نجات کا راستہ پا سکو اور اس کے رہنما کو جان سکو اور جان لو کہ اس کی دعوت واضح حق ہے اور اس کے علاوہ کوئی بھی دعوت گمراہی ہے، اور پھر اس خط کو اپنے رشتہ داروں میں پڑھو اور یہ بات تمام کے کانوں تک پہنچا دو، اب چاہے وہ تمہاری طرح اس پر لبیک کہیں اور طاغوت کی حکومت کی حمایت کرنا چھوڑ دیں اور خدا کی حکومت کی حمایت کی طرف رجوع کریں اور اپنے اجتماعی ارادے اور کافی تعاون سے خدا کے خلیفہ کے ظہور کے لئے زمینہ تیار کریں اور دنیا و آخرت کی سعادتیں حاصل کریں۔

↑[۱] . آل عمران/ ۲۶
↑[۲] . البقرہ/ ۱۲۴
↑[۳] . توجہ کریں: الأحزاب/ ۳۳۔