سوال لکھنے والا: گمنام سوال کی تاریخ: ۲۰/۱/۲۰۱۵

اگر کسی اسلامی ملک کا حکمران جناب منصور ہاشمی خراسانی کی تجویز کو قبول کر لے تو وہ اپنی حکومت کو حضرت مہدی کے حوالے کیسے کریں گے؟ کیا ان کا حضرت مہدی سے کوئی رابطہ یا ملاقات ہے؟ اس کے اجرا کا انکے پاس کیا منصوبہ ہے؟

سوال نمبر کا جواب: ۴ سوال کے جواب کی تاریخ: ۲۰/۱/۲۰۱۵

حضرت مہدی علیہ السلام کے ساتھ حال حاضر میں رابطہ حضوری طور پر گفتگو کرنے کے معنی میں عقلی اور شرعی طور پر ممکن ہے اور یہ ظاہرا بعض مسلمانوں کے ساتھ واقع بھی ہوا ہے، لیکن جناب منصور ہاشمی خراسانی آنحضرت کے ساتھ اپنے ارتباط کا دعوی نہیں کرتے ہیں، اس معنی میں کہ یا تو آپ کا آنحضرت کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے یا آپ اس رابطے کو آشکار نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ بہر حال، چاہے آپکا آنحضرت کے ساتھ رابطہ ہو یا رابطہ نہ ہو، مگر جب بھی اسلامی ممالک کا کوئی ایک حاکم بھی انکی تجویز کو دھوکہ دینے کے لئے نہیں بلکہ مخلصانہ طور پر قبول کر کےاپنی قدرت سے کنارہ کشی اختیار کر لے اور اس قدرت کو مہدی علیہ السلام کے سپرد کر دے اور اپنی صداقت کے اثبات کے لئے ضروری اقدام انجام دے اور آنحضرت کے ظہور میں آسانی کے لئے بہ ترتیب ان امور کو انجام دے کہ جسے کتاب «اسلام کی طرف واپسی» میں بیان کیا گیا ہے، اللہ جسے چاہے اس کے لیے راستہ کھول دے گا؛ کیونکہ وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا؛ جیسا کہ اس نے فرمایا ہے: ﴿وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ[۱] اللہ کسی قوم کا حال یقینا اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے؛ جیسا کہ خدا کا فرمان ہے: ﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ[۲] اور اللہ اپنا حکم پورا کرنے والا ہے؛ جیسا کہ اس نے فرمایا ہے: ﴿إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ[۳] اور اس نے فرمایا ہے: ﴿بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ[۴]؛ بلکہ حق یہ ہے کہ جب مسلمان حکمرانوں کے ذریعہ سے یہ مقدمات حاصل ہو جائیں اور پھر ایک کارشناس اور بے طرف ناظر کے عنوان سے اس پر منصور ہاشمی خراسانی کی تائید ہو اور قابل اعتماد اشخاص ایک مشترک اقدام انجام دیں تو پھر انہیں مہدی علیہ السلام سے کسی رابطہ کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ مہدی علیہ السلام خود ان سے رابطہ قائم کریں گے؛ کیونکہ اس مرحلہ میں انکی طرف سے ہدایت خدا کی طرف سے ان پر فرض ہوگی اور یہ مرحلہ منصور ہاشمی خراسانی کے توسط سے اس قاعدے ﴿إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَى رَبِّي سَيَهْدِينِ[۵]؛ «میں اپنے رب کی طرف جا رہا ہوں وہ مجھے راستہ دکھائے گا» کی بنا پر انجام پائے گا؛ کیونکہ انہوں نے خود اپنے کتاب «اسلام کی طرف واپسی» میں اس مرحلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:

«ہاں، یہ بات صحیح ہے کہ اگر تمام موانع ہٹا بھی لئے جائیں پھر بھی لوگوں کی مہدی تک رسائی انہیں کی طرف سے کی گئی ہدایت کے بعد بھی ممکن نہیں ہے؛ کیونکہ وہ ان کے ہونے کی صورت میں بھی انکے وجود یا مقام سے واقف نہیں ہیں، اور نتیجتاً وہ انہیں بہت زیادہ سختیوں کے بعد روایات میں وارد انکے نشانات پر تکیہ کر انہیں تلاش کر سکتے ہیں۔ لہٰذا مہدی پر واجب ہے کہ وہ رکاوٹ ہٹانے کے بعد لوگوں تک رسائی کو ممکن بنائے اور وہ یہ کام کسی سفیر کو بھیج کر یا انہیں خط لکھ کر یا امکان کی صورت میں کسی اور طریقے سے اس کو انجام دے سکتے ہیں۔ لہذا مہدی تک رسائی کے تمام موانع کو برطرف کرنے کے بعد انکے لئے سب سے ضروری چیز انکے لئے امنیت قائم کرنا ہے، لوگوں پر واجب ہے جب بھی وہ یہ کام انجام دے دیں، تب مہدی پر واجب ہو جاتا ہے کہ وہ لوگوں کی اپنے تک رسائی کو آسان کر دیں وہ تمام نجاستوں سے طہارت کی بنیاد پر اور کتاب خدا میں اور انمیں کوئی فرق نہ ہونے کی بنا پر یہ کام انجام دیں گے اور انکی طرف سے یہ کام انجام نہ پانا اس بات پر دلیل ہے کہ لوگ ان تک رسائی کے موانعات کو اب تک دور نہیں کر پائے ہیں اور انکے لئے لازم امنیت ایجاد نہیں کر پائے ہیں»۔

واضح ہے کہ یہ وعدہ منصور ہاشمی خراسانی کا نہیں ہے کہ جس میں تخلف کا امکان ہو، بلکہ یہ خدا کا وعدہ ہے اور خدا کا وعدہ حتمی ہے، اگر چہ لوگ اس سے باخبر نہ ہوں؛ جیسا کہ اسکا فرمان ہے: ﴿أَلَا إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ[۶]؛ «آگاہ رہو اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے»؛ جیسا کہ اسکا فرمان ہے: ﴿وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ۝ قُلْ لَكُمْ مِيعَادُ يَوْمٍ لَا تَسْتَأْخِرُونَ عَنْهُ سَاعَةً وَلَا تَسْتَقْدِمُونَ[۷]؛ «اور یہ کہتے ہیں: اگر تم لوگ سچے ہو تو بتاؤ قیامت کے وعدے کا دن کب آنے والا ہے؟ کہد دو: تم سے ایک دن کا وعدہ ہے جس سے تم نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکو گے اور نہ آگے بڑھ سکوگے» اسکا فرمان ہے: ﴿وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ۝ قُلْ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُبِينٌ[۸]؛ «اور وہ کہتے ہیں: اگر تم سچے ہو تو بتاؤ یہ وعدہ کب پورا ہوگا؟ کہد دو: علم تو صرف اللہ کے پاس ہے جب کہ میں تو صرف واضح تنبیہ کرنے والا ہوں»۔

لہذا، حق یہ ہے کہ ظہور مہدی علیہ السلام کے لئے زمینہ سازی خدا کے وعدے پر ایمان رکھتے ہوئے کی جائے نہ یہ کہ ہم جہل اور چند کمی و کیفی جزئیات کی بنا پر، لوگوں نے ان کی ضرورت اور افادیت پر شک کیا اور پکارنے والے پر مبالغہ آرائی کا الزام لگایا۔ بہر حال مہدی علیہ السلام کی عدم موجودگی کا مسئلہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اور منصور ہاشمی خراسانی اسے علمی اور میدانی صورت میں حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس مشکل اور دم توڑ دینے والے کام کے لیے انہیں کم از کم کسی ایک اسلامی ملک اور اسکے حکمران کی حمایت کی ضرورت ہے۔

خدا تمام مسلمانوں کو ان قیمتی حکمتوں اور سچائیوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور مسلم حکمرانوں کے دلوں کو اس کو قبول کرنے کے لیے نرم کرے تاکہ مہدی علیہ السلام کے ظہور کے لیے جلد از جلد زمینہ تیار ہو جائے اور عالم اسلام کے تمام مصائب ختم ہو جائیں گے؛ کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور بہت فیاض اور مہربان ہے۔

↑[۱] . آل عمران/ ۱۸۲
↑[۲] . الرعد/ ۱۱
↑[۳] . الطلاق/ ۳
↑[۴] . المائدہ/ ۶۴
↑[۵] . الصافات/ ۹۹
↑[۶] . یونس/ ۵۵
↑[۷] . سبا/ ۲۹-۳۰
↑[۸] . الملک/ ۲۵-۲۶