سوال لکھنے والا: مجتبی حسن دوست سوال کی تاریخ: ۱۷/۱/۲۰۱۵

امام خمینی کے متعلق منصور ہاشمی خراسانی کا کیا نظریہ ہے؟

سوال نمبر کا جواب: ۰ سوال کے جواب کی تاریخ: ۱۷/۱/۲۰۱۵

حضرت علامہ منصور ہاشمی خراسانی حفظہ اللہ تمام علماء اسلام کے لئے احترام کے قائل ہیں اور مسلمانوں کے لئےانجام دئے گئے انکے علمی خدمات کی ستائش کرتے ہیں۔ جبکہ آپ ان میں سے کسی ایک کو بھی کامل اور بے عیب و نقص نہیں مانتے ہیں۔ آپ کا ماننا ہے کہ یہ تمام علماء اپنی تمام تر خدمات کے باوجود، خطا اور اشتباہات کے شکار ہوئے ہیں لہذا انکے خدمات کے ساتھ ساتھ ہمیں انکے اشتباہات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے، جبکہ انکے اشتباہات پر توجہ کرنا انکی بے احترامی ہرگز نہیں ہے۔ لہذا «اسلام کی طرف واپسی» نامی کتاب میں انکی غلطیوں پر توجہ دینا انکے خدمات سے انکار کرنے کے مساوی ہرگز نہیں ہے، بلکہ اسکا مقصد صرف ان چیزوں پر توجہ دلانا ہے جس سے مسلمان غافل ہو چکے ہیں اور وہ غفلت انکے کامل اور خالص اسلام کے حدود سے خارج ہونے کا مکمل طور پر سبب بن چکی ہے۔ مثال کے طور پر، انکی غلطیوں میں سے ایک غلطی اجتہاد کے کلچر کے بجائے تقلید کے کلچر کو فروغ دینا ہے، جس سے مسلمانوں کی دینی بیداری کم ہوئی ہے اور ان میں جہالت، دنیاپرستی، تعصب اور خرافات میں اضافہ ہوا ہے؛ جبکہ اجتہاد کا کلچر بھی ان کی طرف سے صحیح طور پر متعارف نہیں کرایا گیا اور اس اجتہاد کے کلچر کے تعارف میں تقلید کے کلچر کی ہی بو آرہی تھی۔ ان کی غلطیوں میں سے ایک اور غلطی فقیہ کی ولایت مطلقہ پر اصرار ہے کہ جس کی اسلام میں کوئی بنیاد ہی نہیں ہے اور اس پر عقلی اور شرعی دلیل لانا بھی نا ممکن ہے؛ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ عقل اور شریعت غیر معصوم -چاہے وہ لاکھ بڑا عالم اور خیر خواہ ہی کیوں نہ ہو- کی مکمل اور غیر مشروط اطاعت کی اجازت نہیں دیتی، کوئی بھی عقلی اور شرعی دلیل ایسی نہیں ہے جو ہمیں انکے حاکمیت کی طرف دعوت دیتی ہو، یہ تمام دلیلیں ہمیں اسکی حاکمیت کی طرف بلاتی ہیں جسے خدا نے اپنے ارادے سے تمام تر رجس اور نجاسات سے دور رکھا ہے اور اسی کی حاکمیت کو ہر زمانے میں ممکن قرار دیا ہے۔

کیونکہ ایسے شخص کی حکمرانی کا ناممکن ہونا، جو دوسرے حکمرانوں کے مشروعیت اور جواز سے جڑا ہوا ہو محض ایک وہم ہے؛ اس لئے کہ یہ چیزیں مسلمانوں کی کوتاہیوں کے نتیجے میں باہر آئی ہیں جو انہوں نے اسکے لئے زمینہ فراہم کرتے وقت کیا ہے اور اگر اس کمی کو دور کیا جائے یہ چیز با آسانی ان سے دور کی جا سکتی ہے۔ لیکن دوسروں کی حاکمیت سے یہ کمی کبھی دور ہونے والی نہیں ہے؛ کیونکہ اس سے دور اور تناقض لازم آتا ہے؛ اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ دوسری حکومتیں خود اس خرابی کی وجہ ہیں لہذا وہ اس کے خاتمے کا کبھی سبب نہیں بن سکتی ہیں۔ جبکہ حکومت مہدی اس حیثیت سے کہ وہ بھی ایک حکومت ہے دوسروں کی حکومت سے ذرا بھی فرق نہیں کرتی ہے لہذا جس طرح دوسروں کی حکومت کو قائم کرنا یا اسکی حفاظت کرنا ممکن ہے بالکل اسی طرح مہدی کی حکومت کو قائم کرنا یا اسکی حفاظت کرنا بھی ممکن ہے اور اگر حکومت مہدی کی ایجاد یا اسکی حفاظت ممکن نہیں تو پھر دوسری حکومتوں کی ایجاد اور اسکی حفاظت بھی ممکن نہیں ہوگی۔ اور یہ چیز دوسری حکومتوں کے لئے شرعا تعطل کی وجہ بن گئی ہے، اور اس «تعطل» سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ منصور ہاشمی خراسانی کی دعوت کو قبول کیا جائے کہ وہ مہدی کے حق میں بتدریج دستبردار ہو جائیں اور اس امام کو اقتدار منتقل کرنے کا عمل شروع کریں۔ قطعی طور پر یہ ظہور کے لئے زمینہ ساز اور انکی حکومت کے تحقق کی وجہ بن سکتے ہیں؛ کیونکہ آنحضرت اپنی طہارت کی بنا پر ہر رجس اور اپنے ہر شوق سے دور خالص اور کامل اسلام کے قیام اور ظہور اور حکومت کے خواہشمند ہیں اور اس ظہور کا زمینہ اس وقت تک فراہم نہیں ہوگا جب تک کہ مسلمان حکمران اپنی قدرت سے دستبردار ہونے پر آمادہ نہ ہو جائیں اور جب یہ حکومت انکے حوالے کر دیں گے تب ظہور متحقق ہو جائے گا، حتمی طور پر اس کام کی طرف اقدام کریں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب تک کسی ایک مسلمان حاکم نے بھی اس کام کے لئے آمادگی ظاہر نہیں کی ہے اور اپنے اس شیرین قدرت سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں، بلکہ اپنے تمام سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی امکانات کے ساتھ انہوں نے اپنی حاکمیت کی حفاظت کی ہے اور کسی کی طرف سے اس کے بارے میں کوئی نظریہ برداشت نہیں کیا، خواہ وہ مہدی ہی کیوں نہ ہو۔ یہ واضح ہے کہ ان کی حکمرانی، جب تک وہ اس کو اس طرح سے پکڑے ہوئے ہیں اور اسے مہدی تک منتقل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے، اور آنحضرت کے ظہور کو روکے ہوئے ہیں، اور جب بھی وہ اپنی حکومت سے دل برداشتہ ہو جائیں اور جس طرح انصار رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے تھے بالکل اسی طرح سنجیدہ اور واقعی طور پر یہ حکومت کو انکے حوالے کر دیں اور ان کا دعوی مامون عبّاسی کی طرح علی بن موسی الرّضا کے سلسلے میں دھوکہ دہی کا نہ ہو کہ وہ مصر ہو کر آنحضرت کو حکومت پیش کریں، تو آنحضرت بھی قتل عثمان کے بعد بھی علی ابن ابی طالب کی طرح حکومت قبول کر لیں گے اور اسکے لئے قیام کریں گے اور اسی حکومت کے سائے میں زمین جس طرح ظلم سے بھری تھی اسے عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔

اس لیے مہدی کے حق میں اقتدار سے بتدریج مستعفی ہونا اور اس امام کو اقتدار منتقل کرنے کے عمل کا آغاز، اس امام کے ظہور اور ان کی حکومت کے ظہور کی بنیاد بن سکتا ہے، اور یہ ایک ایسا عمل ہے جو تمام اسلامی ممالک میں انجام دیا جا سکتا ہے؛ اس لیے کہ اگر یہ عمل ہو جائے تو ان میں سے ہر ایک مہدی کا میزبان اور ان کی حکومت کا مرکز بن سکتا ہے، لیکن جو اس عمل سے طبیعتا جلد گزر جائے گا، وہ نیکی میں غالب سمجھا جائے گا اور وہ خود پر فخر کرے گا، مہدی کی حکومت کے ادراک کے بعد اسے دنیوی امتیازات، عزت اور آخرت میں اسے فراوانی حاصل ہو گی۔

بحر حال مسلمانوں کا اپنی حکومت سے دستبردار ہو کر اس حکومت اور قدرت کو مہدی کی طرف منتقل کرنا، ایسا کام ہے جس سے بچا نہیں جا سکتا ہے، دیر یا سویر یہ ہونا ہی ہے۔ لہٰذا حضرت منصور ہاشمی خراسانی تجویز کرتے ہیں کہ وہ ایک بصیرت اور غیر جانبدار مبصر کی حیثیت سے یہ کام پرامن طریقے سے اور ان کی نگرانی اور رہنمائی میں جلد از جلد انجام دیں؛ کیونکہ وہ خود اس کشمکش کا ایک فریق ہیں اور مہدی دوسرا فریق، اس لحاظ سے وہ فائدہ مند اور ناقابل اعتبار تصور کیے جاتے ہیں اور ان کے مستقل رضا کار کی امید میں مزید ایک ہزار سال تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا ممکن نہیں، جب کہ حضرت منصور ہاشمی خراسانی کے پاس نہ تو خودحکومت ہے اور نہ ہی وہ حکومت کے خواہاں ہیں اور نہ ہی وہ حکومت قبول کرتے ہیں، اس لیے وہ ایک رابطہ کار کے طور پر مہدی کو اقتدار کی منتقلی میں محرک اور موثر کردار ادا کر رہے ہیں۔ تاہم جب بھی مسلم حکمران واقعی مہدی کی حکومت چاہتے ہیں، تو غرور اور تکبر کو انہیں چھوڑنا ہوگا اور بغیر کسی خوف اور فکر کے اس میدان میں ان کی رہنمائی کو بطور مشیر، ماہر اور ظہور کے رہنما کے طور پر استعمال کریں، اور خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے، اس اتار چڑھاؤ والے راستے پر گامزن ہو جائیں جبکہ اس پیچ و خم والے راستے کی انتہاء سعادت دنیا اور آخرت ہے۔ یہ ایک ایسا نقطہ نظر ہے جو مہدی کے سلسلے میں مسلم حکمرانوں کے لیے تصور کیا جا سکتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی اور نقطہ نظر خواب کے سوا کچھ نہیں ہے۔

امید ہے کہ منصور ہاشمی خراسانی کی تحریک کی بدولت مہدی اور ان کی حکمرانی کے بارے میں مسلمانوں کا نظریہ کھل کر حقیقت پسند ہو جائے گا؛ کیونکہ وہ اس امام کے بارے میں ان کا رویہ درست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کے ظہور اور حکمرانی کو وہم و تخیل کے اندھیروں سے حقیقت اور معروضیت کی روشنی میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہی عملی طور پر زمینہ سازی کا مصداق ہے نہ کہ مہدی کے ظہور اور حکومت کا دعویٰ، جو در اصل انہیں کے توسط سے انجام پا رہا ہے اور انکے علاوہ کہیں اور سے ایسی کوئی خبر سننے کو نہیں ملتی ہے۔

خدا تمام مسلمانوں کو اس گہرے علم کو سمجھنے اور ظہور مہدی کے حقیقی بانیوں میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور انہیں شیاطین کے فریب سے محفوظ رکھے جو انہیں اس ضروری اور اہم کام سے روکنے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لاتے ہیں۔