۱ . أَخْبَرَنَا أَتَابَكُ بْنُ جَمْشِيدَ السُّغْدِيُّ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى الْمَنْصُورِ الْهَاشِمِيِّ الْخُرَاسَانِيِّ وَعِنْدَهُ رِجَالٌ، فَمَكَثْتُ حَتَّى خَرَجَ الرِّجَالُ، فَأَقْبَلَ عَلَيَّ وَقَالَ: أَلَكَ إِلَيَّ حَاجَةٌ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، مَسْأَلَةٌ، وَأَخَذْتُ أَرْتَعِدُ مِنْ مَهَابَتِهِ، فَقَالَ: سَلْ وَهَوِّنْ عَلَيْكَ! قُلْتُ: أَنْتَ الْخُرَاسَانِيُّ؟! قَالَ: أَنَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ خُرَاسَانَ! قُلْتُ: لَا أُرِيدُ هَذَا، وَلَكِنْ أُرِيدُ الَّذِي يُوَطِّئُ لِلْمَهْدِيِّ سُلْطَانَهُ! قَالَ: أَنَا أُوَطِّئُ لِلْمَهْدِيِّ سُلْطَانَهُ! قُلْتُ: لَا أُرِيدُ هَذَا، وَلَكِنْ أُرِيدُ الَّذِي يُؤَدِّي الرَّايَةَ إِلَى الْمَهْدِيِّ! قَالَ: إِنْ شَاءَ اللَّهُ، إِنْ شَاءَ اللَّهُ، مَا يَمْنَعُكُمْ مِنْ أَنْ تَقُولُوا إِنْ شَاءَ اللَّهُ؟! فَدَخَلَ رَجُلَانِ فَقَطَعَا عَلَيْهِ الْكَلَامَ، فَقَضَى حَاجَتَهُمَا، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ فَقَالَ: بَلَغَنِي أَنَّ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلَامُ أُوتِيَ كِتَابًا مِنْ كُتُبِ الْأَوَّلِينَ، فَنَظَرَ فِيهِ، فَوَجَدَ فِيهِ اسْمَهُ وَصِفَتَهُ، فَبَكَى ثُمَّ قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ أَكُنْ عِنْدَهُ مَنْسِيًّا، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَثْبَتَنِي عِنْدَهُ فِي صَحِيفَةِ الْأَبْرَارِ! فَلَمْ يَزِدْ عَلَى حَمْدِ اللَّهِ شَيْئًا وَلَمْ يُجَادِلْ فِي ذَلِكَ أَحَدًا!

قول کا ترجمہ:

اتابک بن جمشید سغندی نے ہمیں خبر دی، وہ کہتے ہیں: میں منصور ہاشمی خراسانی کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت جبکہ ان پاس کچھ اور لوگ بھی حاضر تھے، میں نے انتظار کیا یہاں تک کہ وہ لوگ چلے گئے، تو پھر انہوں نے میری طرف رخ کیا اور فرمایا: مجھ سے کوئی کام ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، میرا ایک سوال ہے اور میں ان کی ہیبت سے کانپنے لگا، انہوں نے فرمایا: پوچھو اور اپنے اوپر اتنا سخت نہ لو! میں نے کہا: کیا آپ خراسانی ہیں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! میں خراسان کے رہنے والوں میں سے ہوں! میں نے کہا: میرا یہ مطلب نہیں ہے، میری مراد وہ ہیں جو حکومت مہدی کے لئے زمینہ سازی کرتے ہیں! انہوں نے فرمایا: میں مہدی کے حکومت کی زمینہ سازی کر رہا ہوں! میں نے کہا: میرا یہ مطلب نہیں ہے، میری مراد وہ ہیں جو پرچم، مہدی تک پہنچائیں گے! انہوں نے فرمایا: ان شاء اللہ، ان شاء اللہ، تمہیں ان شاء اللہ کہنے سے کس چیز نے روکا ہے؟! اسی وقت دو شخص داخل ہوئے اور ان کی بات کو کاٹا، پس آپ نے ان کی ضرورت پوری کی، پھر آپ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ علی علیہ السلام کو گذشتگان کی کتابوں میں سے ایک کتاب دی گئی تھی، تو آپ نے اسے دیکھا اور اس میں آپ نے اپنا نام اور اپنی صفت کو پایا، پھر آپ نے گریہ کرتے ہوئے فرمایا: خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے بھلایا نہیں، خدا کا شکر ہے کہ اس نے میرا ذکر صحیفہء صالحین میں کیا ہے! پس انہوں نے خدا کے شکر کے سوا کچھ نہیں کیا اور کسی سے اس پر بحث نہیں کی!

۲ . أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْهَرَوِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ الْمَنْصُورَ يَقُولُ فِي دُعَائِهِ: رَبِّ أَسْأَلُكَ أَنْ تُرِيَنِي عُلُوَّ خَلِيفَتِكَ فِي الْأَرْضِ قَبْلَ أَنْ أَمُوتَ! قُلْتُ: جُعِلْتُ فِدَاكَ، أَتَدْعُو بِمِثْلِ هَذَا الدُّعَاءِ وَأَنْتَ تَعْلَمُ أَنَّكَ تَدْفَعُ الرَّايَةَ إِلَيْهِ وَتَكُونُ مَعَهُ فِي جَمِيعِ مَوَاطِنِهِ؟! قَالَ: إِنِّي أَرْجُو أَنْ يَكُونَ الْأَمْرُ كَمَا وَصَفْتَ، وَلَكِنْ كَانَ أَبُو جَعْفَرٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ يَقُولُ: مَنْ زَعَمَ أَنَّهُ قَدْ فَرِغَ مِنَ الْأَمْرِ فَقَدْ كَذَبَ، لِأَنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ الْمَشِيئَةَ فِي خَلْقِهِ، يُحْدِثُ مَا يَشَاءُ وَيَفْعَلُ مَا يُرِيدُ! ثُمَّ قَالَ الْمَنْصُورُ: رَحِمَ اللَّهُ امْرَءً مِنْكُمْ يَفْعَلُ مَا يُؤْمَرُ وَلَا يَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ!

قول کا ترجمہ:

محمد بن عبدالرحمٰن ہروی نے ہمیں خبر دی، وہ کہتے ہیں: میں نے منصور کو اپنی دعا میں یہ کہتے سنا: اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ مرنے سے پہلے مجھے زمین پر اپنے خلیفہ کی برتری دکھا دے! میں نے کہا: میں آپ پر قربان ہو جاؤں، کیا آپ اس طرح دعا کرتے ہیں، جبکہ آپ جانتے ہیں کہ آپ ہی پرچم کو امام تک پہنچاینگے اور آپ ان کے تمام مواطن میں ان کے ساتھ ہیں؟! آپ نے فرمایا: مجھے امید ہے کہ جیسا تم نے کہا ہے ویسا ہی ہوگا، لیکن ابو جعفر (باقر) علیہ السلام نے فرمایا: جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ کام سے فارغ ہوگیا ہے وہ جھوٹ بولتا ہے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق میں ایک مشیئت ہے، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے! پھر منصور نے فرمایا: خدا تم میں سے اس شخص پر رحم کرے جو اس پر عمل کرتا ہے جس کا اسے حکم دیا گیا ہے اور ڈوبنے والوں کے ساتھ (آخر زمان کے حوادث کی پیش بینی میں) ڈوب نہیں جاتا ہے!

۳ . أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ الْجُوزَجَانِيُّ، قَالَ: سَأَلَنِي رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ أَسْتَأْذِنَ لَهُ عَلَى الْمَنْصُورِ، فَفَعَلْتُ ذَلِكَ، فَأَذِنَ لَهُ، فَلَمَّا خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ قُلْتُ لَهُ: مَا وَرَاءَكَ؟! قَالَ: وَيْحَكَ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ! خَرَجْتُ مِنْ عِنْدِ رَجُلٍ لَا يُفَارِقُ الْقُرْآنَ وَلَا يُفَارِقُهُ، يُجْرِي اللَّهُ الْحَقَّ عَلَى لِسَانِهِ، يُلْهِمُهُ إِلْهَامًا، فَلَا يُسْأَلُ عَنْ شَيْءٍ مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا يُجِيبُ، يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْعِلْمُ! قُلْتُ: أَمَا سَأَلْتَهُ مَنْ هُوَ؟ قَالَ: بَلَى، قُلْتُ لَهُ: مَنْ أَنْتَ جُعِلْتُ فِدَاكَ؟ قَالَ: أَمَّا أَنَا فَرَجُلٌ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ أُوَطِّئُ لِرَجُلٍ مِنْ عِتْرَتِهِ يُقَالُ لَهُ الْمَهْدِيُّ، وَحَسْبُكَ هَذَا! قُلْتُ: إِنَّا نَجِدُ فِي الْكُتُبِ أَنَّكَ خَلِيفَةُ اللَّهِ الْمَهْدِيُّ! قَالَ: وَتَجِدُونَ ذَلِكَ؟! قُلْتُ: نَعَمْ وَاللَّهِ، رَوَاهُ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، وَثَوْبَانٌ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا اللَّفْظِ! قَالَ: أَمَّا أَنَا فَرَجُلٌ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ أُوَطِّئُ لِرَجُلٍ مِنْ عِتْرَتِهِ يُقَالُ لَهُ الْمَهْدِيُّ، وَحَسْبُكَ هَذَا! قُلْتُ: إِنَّا نَجِدُ فِي الْكُتُبِ أَنَّكَ وَزِيرُ الْمَهْدِيِّ وَوَصِيُّهُ الَّذِي يُوصِي إِلَيْكَ! قَالَ: وَتَجِدُونَ ذَلِكَ؟! قُلْتُ: نَعَمْ وَاللَّهِ، رَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَجَابِرُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، وَرَوَى النَّاسُ عَنْ عَلِيٍّ اسْمَكَ وَاسْمَ أَبِيكَ وَسَائِرَ صِفَتِكَ! قَالَ: أَمَّا أَنَا فَرَجُلٌ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ أُوَطِّئُ لِرَجُلٍ مِنْ عِتْرَتِهِ يُقَالُ لَهُ الْمَهْدِيُّ، وَحَسْبُكَ هَذَا! قَالَ: فَمَا سَأَلْتُهُ عَنْ شَيْءٍ مِمَّا نَجِدُ فِي الْكُتُبِ إِلَّا أَجَابَنِي بِمِثْلِ هَذَا الْجَوَابِ!

قول کا ترجمہ:

عیسیٰ ابن عبد الحمید جوزجانی نے ہمیں خبر دی، وہ کہتے ہیں: اہل علم حضرات میں سے ایک شخص نے مجھ سے چاہا کہ میں منصور سے اسکے لئے اجازت طلب کروں تاکہ وہ ان کی خدمت میں حاضر ہو سکے۔ میں نے یہ کام انجام دیا اور انہوں نے بھی اسے اجازت دے دی۔ پھر جب وہ ان کی خدمت سے خارج ہوا تو میں نے اس سے پوچھا: تم کیا چھوڑ کر آئے ہو؟ اس نے کہا: اے ابا محمد تم پر افسوس ہے! میں ایک ایسے شخص کے پاس سے آیا ہوں جو قرآن سے جدا نہیں ہے اور قرآن بھی اس سے جدا نہیں ہے، اللہ تعالیٰ ان کی زبان پر حق کو جاری کرتا ہے، اس کو الہام کرتا ہے جیسے الہام کرنے کا حق ہے، ان سے اسلام کے متعلق کچھ پوچھا نہیں جاتا ہے مگر یہ کہ وہ سب کا جواب دیتے ہیں، ان سے علم کا چشمہ پھوٹتا تھا! میں نے کہا: کیا تم نے ان سے نہیں پوچھا کہ آپ کون ہیں؟! اس نے کہا: ہاں، میں نے ان سے پوچھا، میں آپ پر قربان ہو جاؤں! آپ کون ہیں؟! آپ نے فرمایا: میں محمد صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کا امتی ہوں اور میں انہیں کی عترت میں سے ایک، مہدی نامی شخص کی حکومت کے لئے زمینہ تیار کر رہا ہوں اور تمہارے لئے اتنا کافی ہے! میں نے کہا: ہمیں کتابوں میں ملتا ہے کہ آپ خدا کے ہدایت یافتہ خلیفہ ہیں! انہوں نے فرمایا: کیا تم یہ پاتے ہو؟! میں نے کہا: خدا کی قسم، جی ہاں! علی ابن ابی طالب، عبداللہ بن مسعود اور رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے خادم ثوبان نے بھی، اسی لفظ کے ساتھ روایت کی ہے! انہوں نے فرمایا: لیکن میں محمد صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کا امتی ہوں اور میں انہیں کی عترت میں سے ایک، مہدی نامی شخص کی حکومت کے لئے زمین تیار کر رہا ہوں اور تمہارے لئے اتنا ہی کافی ہے! میں نے کہا: ہمیں کتابوں میں ملتا ہے کہ آپ مہدی کے وزیر اور ان کے وصی ہیں کہ جو آپ کو وصیت کریں گے! انہوں نے فرمایا: کیا تم یہ پاتے ہو؟! میں نے کہا: خدا کی قسم، جی ہاں! عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عمرو بن العاص (پیغمبر سے) اور جابر بن یزید نے ابی جعفر (باقر) سے روایت کی ہے اور لوگوں نے آپ کا نام، آپ کے والد کا نام اور آپ کے دیگر ظاہری صفات، علی سے روایت کی ہے! انہوں نے فرمایا: لیکن میں محمد صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کا امتی ہوں اور میں انہیں کی عترت میں سے ایک، مہدی نامی شخص کی حکومت کے لئے زمین تیار کر رہا ہوں، اور تمہارے لئے اتنا ہی کافی ہے! اس آدمی نے کہا: تو پھر میں نے ان سے ان چیزوں کے متعلق جو ہمیں کتابوں میں ملتا ہے کسی چیز کے بارے میں نہیں پوچھا، مگر یہ کہ انہوں نے مجھے اسی طرح جواب دیا!

۴ . أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ دَاوُودَ الْفَيْض‌آبَادِيُّ، قَالَ: أَدْرَكْتُ الْمَنْصُورَ وَمَعَهُ غَنَمٌ يَرْعَاهَا وَلَيْسَ مَعَهُ إِنْسَانٌ، فَقُلْتُ فِي نَفْسِي: إِنْ لَمْ يُجِبْنِي فِي هَذِهِ السَّاعَةِ فَلَا يُجِيبُنِي أَبَدًا، فَقُلْتُ لَهُ: جُعِلْتُ فِدَاكَ، أَنْتَ الَّذِي بَشَّرَنَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ؟! قَالَ: إِنْ أَدْرَكْتَهُ قَرَّتْ عَيْنَاكَ! فَقُلْتُ فِي نَفْسِي: أَبْهَمْتُ فَأَبْهَمَ! ثُمَّ قُلْتُ لَهُ: يَسْأَلُ النَّاسُ هَلْ أَنْتَ الْمَنْصُورُ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي كُتُبِ الْأَوَّلِينَ؟! قَالَ: دَعْهُمْ يَابْنَ دَاوُودَ! فَوَاللَّهِ لَوْ قُلْتُ لَهُمْ نَعَمْ، فَيَقُولُونَ يَدَّعِي، وَلَوْ قُلْتُ لَهُمْ لَا، فَيَقُولُونَ يَتَّقِي! فَدَعْهُمْ حَتَّى يَهْدِيَ اللَّهُ مِنْهُمْ مَنْ يَشَاءُ! إِنَّهُ بِكَيْدِهِمْ عَلِيمٌ! قُلْتُ: جُعِلْتُ فِدَاكَ، إِنَّهُمْ يَسْأَلُونَنَا عَنْ ذَلِكَ، فَمَاذَا نَقُولُ لَهُمْ؟ قَالَ: لَا يَسْأَلُونَكُمْ عَنْهُ إِلَّا ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ، وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ! فَإِذَا سَأَلُوكُمْ عَنْهُ فَقُولُوا: ﴿عَسَى أَنْ يَكُونَ رَدِفَ لَكُمْ بَعْضُ الَّذِي تَسْتَعْجِلُونَ[۱] وَلَا تُجَادِلُوهُمْ فِيهِ، وَلَا تَجْزِمُوا عَلَيْهِمْ، حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِرَجُلٍ يُخْبِرُهُمْ عَنِّي كَمَا أَخْبَرْتُهُمْ عَنْهُ، وَيُبَيِّنُ لَهُمْ أَكْثَرَ الَّذِي هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ!

قول کا ترجمہ:

علی بن داؤد فیض آبادی نے ہمیں خبر دی، وہ کہتے ہیں: میں منصور سے اس وقت ملا جب آپ بکریوں کے پاس تھے اور انہیں چرا رہے تھے اور اس وقت ان کے ساتھ کوئی اور شخص نہیں تھا، تو میں نے اپنے آپ سے کہا: اگر اس وقت انہوں نے مجھے جواب نہ دیا تو وہ مجھے کبھی جواب نہیں دیں گے۔ پس میں نے ان سے سوال کیا: میں آپ پر فدا ہو جاؤں، کیا آپ وہی ہیں جن کی رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے ہمیں بشارت دی ہے؟! انہوں نے فرمایا: اگر تم انہیں درک کر لو تو تمہاری آنکھیں روشن ہو جائیں گی۔ تو میں نے اپنے آپ سے کہا: میں نے مبہم پوچھا، انہوں نے بھی مبہم جواب دیا! پھر میں نے ان سے کہا: لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا آپ وہی منصور ہیں جنکا وعدہ وہ اپنے گذشتگان کی کتابوں میں پاتے ہیں؟! انہوں نے فرمایا: ان کو چھوڑو اے ابن داؤد! کیونکہ اگر میں ان کو ہاں کہوں تو خدا کی قسم وہ کہینگے کہ یہ دعویٰ کر رہا ہے اور اگر میں نہ کہوں تو وہ کہیں گے کہ یہ تقیہ کر رہاہے! لہذا انہیں جانے دو تاکہ خدا جسے چاہے ہدایت کر دے! یقیناً وہ ان کی چال سے باخبر ہے! میں نے کہا: میں آپ پر فدا ہو جاؤں، وہ ہم سے اس کے متعلق پوچھتے ہیں، تو ہم انہیں کیا جواب دیں؟ انہوں نے فرمایا: تم سے اس کے متعلق سوال نہیں کیا جاتا سوائے فتنہ پروری اور اس کی تاویل تلاش کرنے کے لئے، جبکہ ان کی تاویل کا علم سوائے خدا کے اور علم میں راسخ افراد کے کسی اور کے پاس نہیں ہے! پس جب وہ تم سے اس کے بارے میں پوچھیں تو کہہ دو: «شاید جو کچھ تم جلدی چاہتے ہو اس میں سے کچھ تمہارے پاس پہنچ چکا ہو» اور اس کے بارے میں ان سے جھگڑا نہ کرو اور ان کے بارے میں کوئی نتیجہ اخذ نہ کرو، یہاں تک کہ خدا ایک شخص کو بھیجے کہ جو میرے بارے میں انہیں خبر دے، جس طرح میں نے ان کو ان کے بارے میں مطلع کیا اور ان کو اکثر ان چیزوں کی وضاحت کی جن کے بارے میں وہ متفق نہیں ہیں!

۵ . أَخْبَرَنَا ذَاكِرُ بْنُ مَعْرُوفٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ الْمَنْصُورِ فِي مَجْلِسٍ، وَكَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَهُ عَنْ كُلِّ شَيْءٍ فَيُجِيبُهُمْ، فَلَمَّا فَرِغُوا مِنْ أَسْئِلَتِهِمْ قَالَ لَهُ رَجُلٌ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ آتَاكَ عِلْمًا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ، وَقَدْ وَعَدَنَا عَلَى لِسَانِ رَسُولِهِ رَجُلًا يَخْرُجُ مِنْ هَذِهِ الْبَلْدَةِ يُقَالُ لَهُ الْمَنْصُورُ، يُوَطِّئُ لِلْمَهْدِيِّ سُلْطَانَهُ، وَأَنْتَ مَعَ عِلْمِكَ هَذَا وَدَعْوَتِكَ إِلَى الْمَهْدِيِّ يُقَالُ لَكَ الْمَنْصُورُ، فَهَلْ أَنْتَ هُوَ؟ قَالَ: مَا أَنَا إِلَّا رَجُلٌ مِنَ النَّاسِ! فَلَمَّا أَلَحَّ عَلَيْهِ الرَّجُلُ قَالَ: لَوْ أَنَّكُمْ قُلْتُمْ مَا قُلْنَا وَسَكَتُّمْ عَمَّا سَكَتْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَكُمْ! فَقَالَ الرَّجُلُ: إِنَّهُمْ يُعَيِّرُونَكَ وَيَقُولُونَ: لَوْ جَاءَ ذَلِكَ الَّذِي وُعِدْنَا لَتَظَاهَرَ لِلنَّاسِ وَلَمْ يَسْتَتِرْ عَنْهُمْ! قَالَ: كَذَبُوا! أَمَا بَلَغَهُمْ قَوْلُ عَلِيٍّ فِيهِ: «أَلَا وَإِنَّ مَنْ أَدْرَكَهَا مِنَّا يَسْرِي فِيهَا بِسِرَاجٍ مُنِيرٍ، وَيَحْذُو فِيهَا عَلَى مِثَالِ الصَّالِحِينَ، لِيَحُلَّ فِيهَا رِبْقًا، وَيُعْتِقَ فِيهَا رِقًّا، وَيَصْدَعَ شَعْبًا، وَيَشْعَبَ صَدْعًا، فِي سُتْرَةٍ عَنِ النَّاسِ، لَا يُبْصِرُ الْقَائِفُ أَثَرَهُ وَلَوْ تَابَعَ نَظَرَهُ»؟! قَالَ الرَّجُلُ: إِنَّا نَدْعُو النَّاسَ إِلَى هَذَا الْأَمْرِ وَرُبَّمَا نُخَاصِمُهُمْ! قَالَ: إِيَّاكُمْ وَالْخُصُومَةَ، فَإِنَّهَا تَشْغَلُ الْقَلْبَ، وَتُورِثُ النِّفَاقَ، وَتَكْسِبُ الضَّغَائِنَ! إِنَّمَا عَلَيْكُمُ الدَّعْوَةُ، وَلَيْسَ عَلَيْكُمُ الْخُصُومَةُ! قَالَ الرَّجُلُ: كَيْفَ لَا نُخَاصِمُهُمْ وَهُمْ يَسْأَلُونَنَا؟! قَالَ: إِذَا سَأَلُوكُمْ لِيُخَاصِمُوكُمْ فَلَا تُجِيبُوهُمْ، وَقُولُوا لَهُمْ: ﴿اللَّهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ ۖ لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ ۖ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ۖ اللَّهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ![۲]

قول کا ترجمہ:

ذاکر بن معروف نے ہمیں خبر دی، وہ کہتے ہیں: میں منصور کے ہمراہ ایک جلسے میں تھا، لوگوں نے ان سے ہر چیز کے متعلق سوال کیا اور آنجناب نے بھی جواب عنایت فرمایا، پس جب وہ اپنے سوالات سے فارغ ہوئے تو ایک آدمی نے ان سے کہا: اللہ نے آپ کو وہ علم دیا ہے جو اس دنیا میں کسی کو نہیں دیا، جب کہ اس نے ہم سے اپنے نبی کی زبان سے وعدہ کیا تھا کہ اس سرزمین سے ایک شخص اٹھے گا اور اسکا نام منصور ہو گا اور وہ حکومت مہدی کے لئے زمینہ سازی کرے گا آپ کو آپ کے اس علم کی وجہ سے اور آپ کے اس دعوت کی وجہ سے جو آپ مہدی کے لئے کرتے ہیں منصور کہا جاتا ہے، تو کیا آپ وہی منصور ہیں؟ انہوں نے فرمایا: میں صرف لوگوں میں سے ایک ہوں! پس چونکہ اس شخص نے بہت اصرار کیا، تو آنجناب نے فرمایا: اگر تم وہ کہو جو ہم کہتے ہیں اور جہاں ہم خاموش رہتے ہیں خاموش رہ جاؤ تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے! پس اس شخص نے کہا: وہ آپ کی سرزنش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جس کا ہم سے وعدہ کیا گیا تھا اگر وہ آچکا ہوتا تو وہ لوگوں پر خود کو ظاہر کرتا اور ان سے پوشیدہ نہ رہتا! آپ نے فرمایا: وہ جھوٹ بول رہے ہیں! کیا ان کے متعلق علی کا قول ان تک نہیں پہنچا کہ آپ نے فرمایا ہے: «خبردار! ہم میں سے جو اس زمانے کو درک کرے وہ روشن چراغ کے سائے میں اپنے قدموں کو بڑھائے یا صالحین کے نقش قدم پر چلے، یہاں تک کہ وہ ساری گتھیاں سلجھا دے، اس کے قیدیوں کو آزاد کرا دے، اس میں ایک بھیڑ کو بکھیر دے، اس میں بکھرے ہوئے کو اکٹھا کر دے، جب کہ وہ لوگوں سے پوشیدہ ہے، اس حد تک کہ تلاش کرنے والوں کو اس کا کوئی نشان نظر نہیں آتا، حالانکہ وہ اس پر نگاہ گڑائے رہتے ہیں»؟! اس شخص نے کہا: ہم لوگوں کو اس امر کی طرف دعوت دیتے ہیں، بعض اوقات ان سے دشمنی (یعنی دشمنی کی بحث) ہو جاتی ہے! آپ نے فرمایا: دشمنی سے بچو؛ کیونکہ یہ ذہن کو مشغول رکھتی ہے، نفاق پیدا کرتی ہے اور کینہ پیدا کرتی ہے! آپ کا فرض صرف دعوت دینا ہے اور دشمنی آپ کا کام نہیں ہے! اس شخص نے کہا: ہم ان سے کیسے جھگڑا نہ کریں جب کہ وہ ہم سے پوچھ رہے ہوں؟! آپ نے فرمایا: جب بھی تم سے اس مقصد کے لئے یعنی جھگڑا کرنے کے لیے سوال کیا جائے، تو تم ان کا جواب نہ دو اور یہ کہو: «اللہ ہمارا اور تمہارا رب ہے، ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لئے ہیں، ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی بحث نہیں ہے، بلکہ اللہ ہمیں جمع کرتا ہے اور ہم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے»!

۶ . أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الشِّيرَازِيُّ، قَالَ: قُلْتُ لِلْمَنْصُورِ: أَسْأَلُكَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: أَنْتَ كَنْزُ الطَّالَقَانِ الَّذِي وُعِدْنَا؟ قَالَ: وَمَنْ وَعَدَكُمْ؟ قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ، قَالَ: فَاسْأَلُوهُمَا عَمَّا وَعَدَاكُمْ وَاسْأَلُونِي عَمَّا وَعَدْتُكُمْ! قُلْتُ: إِذًا أَنْتَ هُوَ! قَالَ: لَمْ أَقُلْ هَذَا! قُلْتُ: أَتَتَّقِينِي؟! قَالَ: لَا وَاللَّهِ، لَا أُعْطِيكَ جِرَابَ النُّورَةِ! قُلْتُ: إِذًا تُبْهِمُ فِي قَوْلِكَ، وَالنَّاسُ لَا يَرْضَوْنَ مِنْكَ بِالْإِبْهَامِ! قَالَ: مَاذَا تُرِيدُ مِنِّي يَا شِيرَازِيُّ؟! أَتُرِيدُ أَنْ أَكُونَ كَالْحِمَارِ، يَحْمِلُ كُلَّ مَا يُحَمِّلُونَهُ؟! قُلْتُ: لَا، جُعِلْتُ فِدَاكَ، وَلَكِنَّهُمْ يَتَّهِمُونَكَ وَيَقُولُونَ لَوْ كَانَ هَذَا صَادِقًا لَتَكَلَّمَ بِصَرَاحَةٍ وَمَا أَبْهَمَ! قَالَ: إِنْ أَبْهَمْتُ فَقَدْ أَبْهَمَ اللَّهُ إِذْ أَنْزَلَ الْمُتَشَابِهَاتِ، وَإِذْ قَالَ: ﴿يَسْأَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللَّهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ[۳] وَقَالَ: ﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ۖ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا[۴] وَقَالَ: ﴿قُلْ رَبِّي أَعْلَمُ بِعِدَّتِهِمْ مَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ ۗ فَلَا تُمَارِ فِيهِمْ إِلَّا مِرَاءً ظَاهِرًا وَلَا تَسْتَفْتِ فِيهِمْ مِنْهُمْ أَحَدًا[۵] وَإِبْرَاهِيمُ إِذْ قَالَ: ﴿هَذَا رَبِّي ۖ[۶] وَإِذْ نَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ ﴿فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ ۝ فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِينَ[۷] وَإِذْ قَالَ: ﴿بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِنْ كَانُوا يَنْطِقُونَ[۸] وَيُوسُفُ إِذْ ﴿جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ[۹] وَإِذْ قَالَ: ﴿هَلْ عَلِمْتُمْ مَا فَعَلْتُمْ بِيُوسُفَ وَأَخِيهِ إِذْ أَنْتُمْ جَاهِلُونَ[۱۰] وَسُلَيْمَانُ إِذْ قَالَ: ﴿نَكِّرُوا لَهَا عَرْشَهَا نَنْظُرْ أَتَهْتَدِي أَمْ تَكُونُ مِنَ الَّذِينَ لَا يَهْتَدُونَ ۝ فَلَمَّا جَاءَتْ قِيلَ أَهَكَذَا عَرْشُكِ ۖ قَالَتْ كَأَنَّهُ هُوَ ۚ وَأُوتِينَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهَا وَكُنَّا مُسْلِمِينَ![۱۱]

قول کا ترجمہ:

محمد بن ابراہیم شیرازی نے ہمیں خبر دی، وہ کہتے ہیں: میں نے منصور سے کہا: کیا میں آپ سے کچھ پوچھوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، میں نے کہا: کیا آپ طالقان کے وہی خزانہ ہیں جس کا ہم سے وعدہ کیا گیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: تم سے کس نے وعدہ کیا تھا؟ میں نے کہا: خدا اور اس کے رسول نے، آپ نے فرمایا: تو ان سے پوچھو کہ انہوں نے تم سے وعدہ کیا ہے اور میں نے جو تم سے وعدہ کیا ہے اسکے متعلق مجھ سے سوال کرو! میں نے کہا: اس صورت میں تو وہ شخص آپ ہی ہیں! آپ نے فرمایا: میں نے یہ نہیں کہا ہے! میں نے کہا: کیا آپ مجھ سے تقیہ کر رہے ہیں؟! آپ نے فرمایا: خدا کی قسم، نہیں! صحیح جواب میں تمہیں نہیں دونگا (یعنی میں تم سے نہیں ڈرتا)! میں نے کہا: تو اس صورت میں آپ مبہم بات کر رہے ہیں، جبکہ لوگ ابہام کی صورت میں آپ سے مطمئن نہیں ہونگے! آپ نے فرمایا: اے شیرازی تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟! کیا تم چاہتے ہو کہ میں اس گدھے کی طرح بن جاؤں جو ہر بوجھ کو اٹھا لے جاتا ہے؟! میں نے کہا: میں آپ پر فدا ہو جاؤں، نہیں! لیکن وہ آپ پر الزام لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر آپ سچے ہوتے تو صاف صاف بات کرتے اور اسے مبہم نہ کرتے! آپ نے فرمایا: اگر میں نے اسے مبہم کیا تو خدا نے اسے مبہم کیا ہے، جب اس نے متشابہات آیتوں کو نازل کیا اور جب اس نے فرمایا: «وہ تم سے اس طرح پوچھتے ہیں جیسے تم اس سے واقف ہو، تو کہہ دو کہ اسکا علم خدا کے پاس ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں» اور فرمایا: «وہ تم سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دو کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے، اور تمہیں علم نہیں دیا گیا مگر تھوڑا سا» اور فرمایا: «کہہ دو: میرا رب انکے تعداد کے مطابق خوب جانتا ہے لیکن اس سے تھوڑا ہی واقف ہیں، لہذا ان کے بارے میں مختصر گفتگو کرو اور اس کے متعلق کسی کا نظریہ نہ پوچھو» اور ابراہیم، جب انہوں نے فرمایا: «یہ ستارہ میرا خدا ہے» اس نے ستاروں کی طرف جب دیکھا، «پھر فرمایا: میں بیمار ہوں؛ اس کے بعد انہوں نے روگردانی کر لی» اور فرمایا: «لیکن ان کے بزرگ نے ایسا کیا ہے تو اپنے آپ سے پوچھیں کہ کیا وہ بولتے ہیں» اور یوسف نے جب «اپنے بھائی کی تھیلی میں پیمانہ رکھا اور پکارنے والے نے پکارا: اے قافلے والوں!» تم چور ہو! اور جب اس نے کہا: «کیا تم جانتے ہو کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا جب کہ تم جاہل تھے؟!» اور سلیمان نے جب کہا: «اسکے تخت کو اسکے لئے ناشناس کر دو تاکہ میں دیکھ سکوں کہ وہ اسے ڈھونڈھ پاتے ہیں یا نہیں یا یہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں راستہ نہیں ملتا ہے؛ پس جیسے ہی آیا تو اس سے کہا گیا کہ کیا تمہارا تخت ایسا ہی ہے؟! اس نے کہا: جیسے یہ وہی تخت ہے ہمیں پہلے سے ہی آگاہی تھی اور ہم مسلمان تھے!»

۷ . أَخْبَرَنَا ذَاكِرُ بْنُ مَعْرُوفٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ الْمَنْصُورِ فِي مَسْجِدٍ، نَسْأَلُهُ عَنِ الْعَقِيدَةِ وَالشَّرِيعَةِ فَيُجِيبُنَا، فَدَخَلَ عَلَيْهِ رِجَالٌ لَا نَعْرِفُهُمْ، فَقَالُوا: أَفِيكُمْ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ الْمَنْصُورُ؟! فَسَكَتْنَا وَلَمْ نَرُدَّ عَلَيْهِمْ، حَتَّى قَالَ لَهُمُ الْمَنْصُورُ: نَعَمْ، أَنَا هُوَ! فَالْتَفَتُوا إِلَيْهِ وَقَالُوا: هَلْ أَنْتَ خَلِيفَةُ الْمَهْدِيِّ؟! قَالَ: وَهَلْ جَاءَ الْمَهْدِيُّ حَتَّى يَكُونَ لَهُ خَلِيفَةٌ؟! قَالُوا: لَا نَدْرِي، وَلَكِنَّ فُلَانًا وَفُلَانًا وَفُلَانًا مِنْ أَصْحَابِكَ أَخْبَرُونَا بِأَنَّكَ خَلِيفَةُ الْمَهْدِيِّ! قَالَ: مَا أَنَا أَمَرْتُهُمْ بِذَلِكَ! قَالُوا: أَلَيْسُوا هَؤُلَاءِ مِنْ أَصْحَابِكَ يَدْخُلُونَ عَلَيْكَ صَبَاحًا وَمَسَاءً؟! فَظَهَرَ فِي وَجْهِ الْمَنْصُورِ الْغَضَبُ، فَقَالَ: مَا هَؤُلَاءِ مِنْ أَصْحَابِي، وَلَوْ كَانُوا مِنْ أَصْحَابِي لَاتَّبَعُونِي! فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ قَدْ أَغْضَبُوهُ خَرَجُوا مِنْ عِنْدِهِ، فَأَقْبَلَ الْمَنْصُورُ عَلَيْنَا وَقَالَ: مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَحْمِلُونَ النَّاسَ عَلَى أَكْتَافِنَا؟! أَلَا يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ؟! حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا يَعْرِفُونَ، وَلَا تُحَدِّثُوهُمْ بِمَا لَا يَعْرِفُونَ، فَتُغْرُونَهُمْ بِنَا!

قول کا ترجمہ:

ذاکر بن معروف نے ہمیں خبر دی، وہ کہتے ہیں: ہم منصور کے ساتھ ایک مسجد میں تھے اور ہم ان سے عقائد اور احکام کے متعلق سوال کر رہے تھے اور آپ جواب عنایت فرما رہے تھے۔ اس دوران کچھ لوگ داخل ہوئے جن کو ہم نہیں جانتے تھے، پس انہوں نے کہا: کیا تم میں کوئی ایسا آدمی ہے جسے منصور کہا جائے؟! تو ہم خاموش رہے اور انہیں کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ منصور نے خود ان سے فرمایا: ہاں، میں وہی ہوں! پس ان لوگوں نے منصور کی طرف رخ کیا اور کہا: کیا تم مہدی کے خلیفہ ہو؟! آپ نے فرمایا: کیا مہدی آچکے ہیں کہ جنکے لئے ایک خلیفہ ہو؟! انہوں نے کہا: ہم نہیں جانتے، لیکن فلاں فلاں اور فلاں فلاں آپ کے صحابی نے ہمیں خبر دی ہے کہ آپ مہدی کے خلیفہ ہیں! آنجناب نے فرمایا: میں نے انہیں ایسا کہنے کا کوئی حکم نہیں دیا ہے! انہوں نے کہا: کیا وہ آپ کے صحابی نہیں ہیں اور کیا صبح و شام آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوتے ہیں؟! چنانچہ منصور پر غصے کے اثرات ظاہر ہوئے اور فرمایا: وہ میرے صحابی نہیں ہیں، اگر وہ میرے صحابی ہوتے تو وہ میری پیروی کرتے! پس جب اُنہوں نے دیکھا کہ آنجناب ناراض ہو گئے ہیں تو وہ ان کے پاس سے چلے گئے۔ اس وقت منصور ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اس گروہ کو کیا ہوتا ہے جو لوگوں کو ہمارے کندھوں پر سوار کر دیتے ہیں؟! کیا وہ اس دن سے نہیں ڈرتے جب دل اور نگاہیں الٹ جائیں گی؟! لوگوں کو وہ بتاؤ جو وہ جانتے ہیں اور وہ نہ بتاؤ جو وہ نہیں جانتے، پس انہیں ہماری طرف ترغیب دلاؤ!

قول کی شرح:

ان اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب منصور کے اصحاب، جب بھی کسی بھی دلیل پر اس عقیدے پر پہنچیں کہ وہ ظہور مہدی علیہ السلام کے زمینہ ساز ہیں اور ان کی ایک خاص روحانی حیثیت ہے تو ان کو چاہئے کہ وہ اپنے اس عقیدے کو دوسروں پر مسلط نہ کریں۔ یا ان لوگوں کے ساتھ اسکا تذکرہ نہ کریں جو جہالت اور کوتاہ بینی کی وجہ سے اس نیک بندے کے بارے میں خدا کی رحمت سے مایوس ہیں اور اسے اس کے لیے ناممکن سمجھتے ہیں، بلکہ ان کو چاہئےکہ وہ ان اسلامی عقیدوں اور مسلمات پر توجہ دیں جن کا ذکر «اسلام کی طرف واپسی» نامی کتاب میں کیا گیا ہے۔ دیگر موضوعات پر زور نہ دیں جن کا اس معزز کتاب میں ذکر نہیں ہے؛ اس لئے کہ اس طرح کے ذیلی موضوعات پر زور کتاب «اسلام کی طرف واپسی» میں مذکور اسلامی یقینیات و مسلمات پر پردہ ڈالتا ہے اور زمین پر خدا کی کتاب اور اس کے خلیفہ کے دشمنوں کو جناب منصور سے زیادہ دشمنی پر اکساتا ہے۔ جاسوسی کے ذریعے۔ جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے والے، جو لوگ علم کے لحاظ سے بے حسی اور کمزوری کا شکار ہیں، وہ اس عظیم شخصیت کے متعلق مایوسی کا شکار ہیں اور اس کی خالص اور مکمل اسلام کی دعوت کے مواد پر توجہ دینے سے گریز کرتے ہیں۔

ان کی خالص اور کامل اسلام کی طرف دعوت اور ظہور مہدی کے لئے ان کی عملی طور پر زمینہ سازی کی بنیاد پر کہ جو واقعا دیکھا بھی جا سکتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس عظیم انسان کی حمایت کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے، لہذا انکے باطنی جنبے اور فوق العادہ شخصیت پر تبصرہ ضروری نہیں ہے کیونکہ یہ مسلمانوں میں اختلاف کا سبب قرار پائے گا اگر چہ کہ اسے عقلی اور شرعی اعتبار سے ثابت کیا بھی جا سکتا ہے۔

↑[۱] . النمل/ ۷۲
↑[۲] . الشوری/ ۱۵
↑[۳] . الاعراف/ ۱۸۷
↑[۴] . الاسراء/ ۸۵
↑[۵] . الکہف/ ۲۲
↑[۶] . الانعام/ ۷۶
↑[۷] . الصافات/ ۸۹-۹۰
↑[۸] . الانبیاء/ ۶۳
↑[۹] . یوسف/ ۷۰
↑[۱۰] . یوسف/ ۸۹
↑[۱۱] . النمل/ ۴۱-۴۲