سوال لکھنے والا: امیر محمّد سوال کی تاریخ: ۷/۱/۲۰۱۵

علامہ منصور ہاشمی خراسانی جو علمائے کرام کی تقلید کو کافی نہیں مانتے ہیں، تو انکی نگاہ میں علماء کا کیا کردار ہے اور انکی کیا ذمہداریاں ہیں؟ کیا انکی نگاہ میں علماء اسلام کی کوئی ذمہداری اور انکا کوئی کردار نہیں ہے؟!

سوال نمبر کا جواب: ۱ سوال کے جواب کی تاریخ: ۷/۱/۲۰۱۵

علامہ منصور ہاشمی خراسانی خود ایک مسلمان عالم ہیں لہذا وہ علماء اسلام کے لئے اتنی ہی ذمہداریوں اور انکے اتنے ہی کردار کے قائل ہیں کہ جتنا وہ خود کو ذمّہدار اور مؤثر مانتے ہیں۔ اور وہ ذمہّداری یہ ہے کہ دنیا میں خدا کے خلیفہ کی حکمرانی کو قائم اور برقرار رکھتے ہوئے زمین پر خالص اور مکمل اسلام کے قیام کی بنیاد ڈالی جائے۔ جس کی وضاحت عظیم کتاب «اسلام کی طرف واپسی» میں کی گئی ہے۔ لہذا، ان کی نگاہ میں علماء اسلام پر واجب ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی طرف بلانے کے بجائے وہ انہیں زمین پر موجود خدا کے خلیفہ کی طرف دعوت دیں اور اپنی حاکمیت کو قائم اور برقرار رکھنے کے بجائے ان کی حاکمیت کو قائم و دائم رکھنے کی کوشش کریں؛ یہ کام اس صورت میں ممکن ہے جب مسلمانوں کی طرف سے اس کے مقدمات فراہم کئے جائیں اور یہ مقدمات کم و بیش وہی ہیں جو دوسری حکومتوں کے قیام اور ان کی دیکھ بھال کے لیے ہوتے ہیں۔ لہذا، ہر وہ مسلمان عالم جو مسلمانوں کو مہدی کی بیعت کا حکم دیتا ہے اور دوسروں کی بیعت سے منع کرتا ہے وہ اپنا اسلامی فریضہ ادا کر رہا ہے، مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اس کی دعوت کو قبول کریں اور اس معاملے میں اس کی مدد کریں، لیکن وہ مسلمان علماء جو مسلمانوں کو مہدی کی بیعت کا حکم نہیں دیتے ہیں اور دوسروں کی بیعت سے نہیں روکتے ہیں وہ اپنا اسلامی فریضہ ادا نہیں کررہے ہیں، لہذا مسلمانوں پر ایسے لوگوں سے بچنا واجب ہے۔

اس کے علاوہ، حضرت منصور ہاشمی خراسانی، مسلمانوں کے لئے علماء اسلام کو مرجع تقلید کے طور پر تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ آنجناب کا ماننا ہے کہ ان کے دلائل کو جانے بغیر ان کے فتووں پر عمل کرنا ہمارے لئے کافی ثابت نہیں ہوگا؛ بالکل اسی طرح جس طرح سے انکی دلیلیں ظنی ہونے کی صورت میں انکے لئے کافی نہیں ہوتی ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ مسلم علماء کے فتاویٰ کو ان کے دلائل کے ساتھ تلاش کریں اور مسلم علماء کا بھی فرض ہے کہ وہ انہیں اپنے فتووں کے دلائل کی تفصیل سے آگاہ کریں، مثال کے طور پر یہ بتائیں کہ ان کے فتووں پر دلیل قرآن کی آیت یا حدیث یا متواتر حدیث ہیں یا انہوں نے یہ بات زمین پر موجود خدا کے خلیفہ سے خود حضوری طور پر سنی ہے، اگر ایسا ہو تو پھر مسلمان ان کے فتووں پر عمل کر سکتے ہیں۔ کیونکہ پھر یہ انکی تقلید شمار نہیں کی جائے گی بلکہ یہ ان کے قطعی دلائل اور درحقیقت قرآن و سنت کی پیروی مانی جائے گی۔ البتہ اگر وہ اپنے فتاویٰ کی تفصیل بیان نہ کریں یا ان کے فتووں کے دلائل مفید ظن ہوں یا شہرت یا اجماع یا واحد خبر میں سے ہو تو اس صورت میں ان کے فتاویٰ پر عمل ہمارے لئے مجزی نہیں ہوگا لہذا اس صورت میں پھر واجب ہے کہ انسان خود یقینی دلائل کی جستجو کرے یا اگر احتیاط پر عمل ممکن ہو تو پھر احتیاط پر عمل کرے یا پھر اس وقت تک انتظار کرے جب تک کہ وہ زمین پر موجود خدا کے خلیفہ تک رسائی حاصل نہ کر لے، اور یقیناً زمین پر خدا کے خلیفہ تک رسائی کے لئے زمینہ فراہم کرنا ایسے ہی واجب ہے جیسے کسی حاجی کے لئے مسجد الحرام تک رسائی واجب ہو۔ یہ ایسی حقیقت ہے جسے حضرت منصور ہاشمی خراسانی ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں، اب دنیا کے مشرقی اور مغربی ممالک کے لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ان باتوں کو سنیں اور ان پر غور کریں۔