سوال لکھنے والا: حبیب الرّحمن بارکزی سوال کی تاریخ: ۱/۱/۲۰۱۵

کیا جناب منصور ہاشمی خراسانی عقل کو شریعت پر مقدّم سمجھتے ہیں اور ان کا اعتقاد ہے کہ ہم شریعت کے بجاۓ عقل کی پیروی کریں؟

سوال نمبر کا جواب: ۱ سوال کے جواب کی تاریخ: ۱/۱/۲۰۱۵

آپ کا یہ سوال اس غلط فہمی سے پیدا ہوا ہے کہ عقل اور شریعت میں تضاد ہے اسطرح کہ ایک کی اطاعت کا مطلب دوسرے کی نافرمانی ہے، اور دونوں میں سے ایک کو لازمی طور پر دوسرے پر مقدّم ہونا چاہۓ، جبکہ جناب منصور کے نزدیک عقل اور شریعت دونوں کا ماخذ ایک ہے اور دونوں ہی خداۓ حکیم کی خلقت ہیں اسلۓ دونوں میں کوئ تضاد نہیں ہے؛ جیسا کہ اللہ نے خود فرمایا ہے: ﴿مَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ[۱]؛ «خدا کی خلقت میں کوئ فرق نہیں دیکھو گے» اور اس صفت کے ساتھ، عقل کی پیروی کا مطلب شریعت کی پیروی نہ کرنا اور اس پر اولویت دینا نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس شریعت کی پیروی کے معنی میں بھی ہے؛ کیونکہ شریعت نے ماخذ کی وحدت اور عقل کے ساتھ اس کی مکمّل مطابقت کے سبب عقل کی پیروی کا حکم دیا ہے اور اسکی طرف بلایا ہے؛ جیسا کہ مثال کے طور پر فرمایا ہے: ﴿لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ[۲]؛ «امّید کی جاتی ہے کہ تم عقل کو کام میں لاؤ» اور فرمایا ہے: ﴿أَفَلَا تَعْقِلُونَ[۳]؛ «کیا تم عقل کو کام میں نہیں لاؤگے؟!»۔ اس بناء پر جناب منصور عقل کو شریعت پر اولویت نہیں دیتے اور اس بات کے معتقد نہیں ہیں کہ تم شریعت کی جگہ عقل کی پیروی کرو، بلکہ وہ عقل کو شریعت کے موافق سمجھتے ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تم دونوں کی پیروی کرو؛ جیسا کہ اللہ نے دونوں کی پیروی کا حکم دیا اور فرمایا ہے: ﴿أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ[۴]؛ «یا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر (شریعت) کو سنتے ہیں، یا عقل سے کام لیتے ہیں؟!» اور فرمایا ہے: ﴿وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ[۵]؛ «اور (دوزخ والے) کہتے ہیں کہ اگر ہم (شریعت کو) سنتے یا عقل کو کام میں لاتے تو اہل دوزخ کے درمیان نہ ہوتے»، حالانکہ بہت سے مسلمان پروردگار عالم کی اس بات کے خلاف یہ سمجھتے ہیں کہ شریعت کے ہوتے ہوۓ عقل کی پیروی کی ضرورت نہیں ہے اور شریعت انکو عقل سے بےنیاز کرتی ہے، بلکہ سمجھتے ہیں کہ شریعت کے ہوتے ہوۓ عقل کی پیروی جائز نہیں ہے اور وہ انسان جو شریعت کے ہوتے ہوۓ عقل سے استناد کرتا ہے، بدعت اور گمراہی میں ہے۔ اس گروہ میں سر فہرست، اہل حدیث مسلمان ہیں کہ جو سمجھتے ہیں کہ ان کی ضرورت کی ہر چیز حدیث میں ہے اور اسکے ہوتے ہوۓ عقل کو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے، جب کہ یہ سوچ واقعیّت کے خلاف ہے؛ کیوں کہ یہاں تک حدیث بھی، چاہیں اعتبار کے لحاظ سے ہو اور چاہیں معنی کے لحاظ سے ہو عقل کے ذریعے پہچانی جاتی ہے اور عقل کے بغیر قابل شناخت نہیں ہے۔ اس لحاظ سے، جناب منصور عقل کی اطاعت کو ایک ضروری اور ناگزیر عمل سمجھتے ہیں اور ان کا اعتقاد ہے کہ اسکے بارے میں عدم اطمینان اور بےیقینی اسکے استعمال کے معنی میں ہے اسکی پیروی پر کوئ اثر نہیں رکھتے۔

ہاں، یہ عقل کو معیار شناخت سمجھتے ہیں اور اس حیثیت سے کہا جا سکتا ہے کہ عقل کو شرع پر اولویت دیتے ہیں، لیکن یہ اس وجہ سے ہے کہ شریعت عقل کے وسیلے سے پہچانی جاتی ہے اور شریعت کی شناخت خود اسکے وسیلے سے ممکن نہیں ہے؛ کیونکہ واضح ہے کہ اعتبار قرآن کو پہچاننے کے لۓ قرآن، سنّت کے اعتبار کی شناخت کے لۓ سنّت سے استناد نہیں کیا جا سکتا اور اسطرح کا کام مناسب نہیں ہے۔ اس وجہ سے، شریعت کے اعتبار کو پہچاننے کے لۓ عقل کے استناد کے علاوہ کوئ اور چارہ نہیں ہے اور اسی وجہ سے، عقل کو شریعت پر ایک قسم کی ضروری اور فطری ترجیح حاصل ہے اور شریعت بھی اس اولویت کو رسمی طور پر پہچانتی ہے، لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ شریعت کے تمام احکامات جیسے نماز کے احکام، روزہ، حج، اور زکات مستقل طور پر عقل کے ذریعے پہچانے جاتے ہیں؛ اسلۓ کہ اس قسم کے احکامات خداوند عالم کے ایجادات میں سے ہیں کہ عقل ان کے اسباب و علل کو شمار نہیں کر سکتی اور ناگزیر اس کا خود خداوند عالم سے سننا ضروری سمجھتی ہے۔ اس وجہ سے شناخت کے لۓ عقل کا معیار ہونا اس کا شریعت سے بےنیاز ہونے کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ شریعت کی تمام چیزوں کی شناخت کے لۓ ذریعہ ہونے کے معنی میں ہے کہ جو بلاشبہ اسکے ذاتی اور بدیہی اعتبار سے ممکن ہے۔

یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت کے تناسب سے اس کے نقصان کے باوجود جو لوگ جناب منصور پر شریعت پر عقل کو اولویت دینے کا الزام لگاتے ہیں، وہ در اصل انکے مطلب کو نہیں سمجھ پاۓ ہیں اور ابتدا سے انتہا تک انکی بات کو درک نہیں کر پاۓ ہیں اور انھوں نے انکی کتاب کو صرف اپنے تصوّرات کے نقطہ نظر سے دیکھا ہے کہ عقل شریعت کے مخالف ہے یا قیاس اور قابلیت کے مترادف ہے۔ اسمیں کوئ شک نہیں کہ ان کے افکار اور خالص اور مکمّل اسلام کی جو تصویر انھوں نے پیش کی ہے اسکو جاننا اس قسم کے پیشگی تصوّرات کو نظر انداز کۓ بغیر اور انکی فکری بنیادوں کو سمجھے بغیر ناممکن ہے اور جو لوگ اپنی فکری بنیادوں اور اپنے بے بنیاد تصوّرات پر بھروسہ کرتے ہیں اور توجّہ دۓ بغیر مقدّمات اور پیشگی ضرورتوں کو مدّ نظر رکھتے ہوۓ ان کی تعلیمات کو سنتے ہیں وہ اسکے بارے میں کچھ نہیں سمجھیں گے اور وہ اسے قبول نہیں کریں گے اور یہ جناب منصور کا قصور نہیں ہوگا بلکہ یہ ان لوگوں کا قصور ہوگا جنھوں نے ان کے مفہوم کے بارے میں سوال کرنے کے بجاۓ انکا مزاق اڑایا اور ان سے استفادہ کرنے کے بجاۓ ان کی رنجیدگی کا باعث بنے اور یا ان کے حضور میں انھوں نے بے معنی اور فضول خاموشی اختیار کر لی ہے۔

↑[۱] . الملک/ ۳
↑[۲] . البقرہ/ ۷۳
↑[۳] . البقرہ/ ۴۴
↑[۴] . الفرقان/ ۴۴
↑[۵] . الملک/ ۱۰