سوال لکھنے والا: گمنام سوال کی تاریخ: ۲۶/۱۲/۲۰۱۴

مہربانی کر کے تقلید کی خصوصیت اور اسلام میں اس کے مقام کے بارے میں رہنمائ فرمائیں۔

سوال نمبر کا جواب: ۱ سوال کے جواب کی تاریخ: ۲۷/۱۲/۲۰۱۴

ایک بہت اہم قاعدہ جسے ہر مسلمان کو جاننا چاہۓ اور اس پر توجہ دینا چاہۓ وہ ہے اسلام میں شک کا حجت نہ ہونا۔ اللہ تعالی نے قرآن کی مختلف آیات میں تاکید کی ہے اور فرمایا ہے ﴿إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا[۱] یعنی «حقیقت کے لۓ شک کافی نہیں ہے» اور کسی بھی شخص کو شک کی پیروی کرنے کے لۓ منع کیا ہے اور فرمایا ہے ﴿إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ[۲] یعنی «وہ شک کے علاوہ پیروی نہیں کرتے اور وہ کسی چیز کا اندازہ نہیں لگاتے» یہ اس معنی میں ہوا کہ انسان کا عقیدہ اور عمل ایک ساتھ یقین کے اوپر ٹکا ہوا ہو اور وہ عقیدہ اور عمل کہ جو شک کے اوپر ٹکا ہوا ہو وہ صحیح نہیں ہے اور خدا کے نزدیک بھی قابل قبول نہیں ہے۔ یہ اسطرح ہے کہ عقائد اور اعمال میں دوسروں کی تقلید کا مطلب ہے کہ ان کے قول و فعل کی پیروی دلیلوں کو جانے بغیر اور اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع صرف شک کو جنم دیتا ہے یقین کا باعث نہیں ہوتا ، اس وضاحت کے ساتھ ، قرآن میں خدا کے واضح بیان کے مطابق «حق کے سوا کچھ بھی کافی نہیں ہے» ۔

لیکن کچھ لوگوں کی دلیلیں جو اعمال میں تقلید کو جائز سمجھتے ہیں یہ ہے کہ وہ اعمال کو عقائد سے جدا سمجھتے ہیں، جبکہ اسطرح کا کوئ بھی فرق اسلام سے ثابت نہیں ہے اور اللہ کا بیان قرآن مجید میں عام ہے اور اس میں اعمال و عقائد شامل ہیں۔ اسکا مطلب یہ ہوا جسطرح ہر مسلمان لکھنا پڑھنا اور اپنی زندگی کی دیگر ضروریات کو سیکھتا ہے اعمال و عقائد اسلامی کو بھی سیکھے اور کسی بھی عقیدے یا عمل کو بغیر کسی قطعی اور یقینی دلیل کے قبول نہ کرے اور انجام نہ دے۔

قطعی اور یقینی دلیل اسلام میں اسی طرح ہے کہ جیسے حضرت علامہ منصور ہاشمی خراسانی حفظہ اللہ تعالی نے کتاب «اسلام کی طرف واپسی» میں بیان فرمایا ہے، قرآنی آیات اور متواتر احادیث یقینا خدا کے خلیفہ سے زمین پر سننا ہے اور یہی خالص و کامل اسلام شمار کیا جاۓ گا کہ جو شکوک سے آلودہ نہیں ہے۔

↑[۱] . یونس/ ۳۶
↑[۲] . یونس/ ۶۶